لکھنؤ: عالمی شہرت یافتہ شاعراورپوری دنیا میں منفرد شاعری اورلب ولہجہ کی وجہ سے مقام حاصل کرنے والے، اپنی شاعری میں ’ماں‘ کو خصوصی مقام عطا کرنے والے ہر دل عزیز شاعر منوررانا کوآج لکھنؤ کےعیش باغ سپرد خاک کیا گیا۔
اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے نم آنکھوں سے انہیں الوداع کہا۔ منوررانا کی نمازجنازہ لکھنؤکے معروف ادارہ ندوۃ العلماء میں بعد نمازظہرادا کی گئی۔ اس کے بعد عیش باغ واقع قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ قابل ذکرہے کہ انہوں نے ۱۴ جنوری ۲۰۲۴ کو لکھنؤ کے پی جی آئی اسپتال میں ۷۱ سال کی عمرمیں آخری سانس لی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ اُن کی زیادہ طبیعت خراب ہونے کے بعد ۹جنوری کو لکھنؤ کے پی جی آئی میں آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا۔جب شاعر منور رانا کی طبیعت خراب ہوئی تو انہیں سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یعنی ایس جی پی جی آئی، لکھنؤ میں داخل کرایا گیا۔ اس سے پہلے وہ دو دن پہلے تک لکھنؤ کے میڈانتا اسپتال میں داخل تھے۔گزشتہ کئی روز سے علیل رانا کی صحت کے حوالے سے پورا ملک پریشان تھا۔ ادبی معاشرہ بھی ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو تھا لیکن اتوار کی رات دیر گئے وہ آنکھیں بند کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
منوررانا کے انتقال پروزیراعظم نریندرمودی، کانگریس صدرملیکا ارجن کھڑگے، سابق صدرراہل گاندھی، اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو، یوپی کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک، راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ اورمعروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی، مشہورشاعراورکوی کماروشواس، عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات، اردوادب کی نامورشخصیات، صحافیوں اورعام لوگوں نے بھی تعزیت کا اظہارکیا۔
سوشل میڈیا پران کے انتقال کی خبربھری پڑی ہے اورلوگوں نے ان کے اشعارکے ذریعہ ہی انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ منوررانا کو تعزیت پیش کرنے کے لئے یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو اورنغمہ نگارجاوید اختربھی ان کے گھرپہنچے اوراہل خانہ سے تعزیت کا اظہارکیا۔ منوررانا کی تدفین میں معروف نغمہ نگارجاوید اخترنے بھی شرکت کی اورتعزیت پیش کیا۔ اس موقع پرانہوں نے کہا کہ منوررانا کا انتقال شاعری اواردو کے لئے بہت بڑا نقصان ہے، مجھے اس کا بہت افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شاعری متاثرکن ہے، ان کا اپنا انداز تحریرتھا۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔ انہوں نے منوررانا کے اندازاوراچھی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اچھی شاعری کرنا کافی مشکل ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل اپنی شاعری کرنا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں منوررانا کو یاد کیا ہے اورخراج پیش کرتے ہوئے ان کی ادبی خدمات کوسراہا ہے۔ پی ایم مودی نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ منوررانا کے انتقال کی خبرسے کافی تکلیف ہوئی ہے۔ اردوادب وشاعری میں ان کی بہترین شراکت داری ہے۔ ان کے وارثین کے ساتھ میری گہری تعزیت ہے۔کانگریس پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے بھی منوررانا کو یاد کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پرلکھا کہ لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے۔ میں اردو میں غزل کہتاہوں ،ہندی مسکراتی ہے۔ اردو کے مشہور شاعر، منور رانا جی کا انتقال ادبی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کے الفاظ رشتوں کے خوبصورت تانا بانا بنتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اورچاہنے والوں کے تئیں میری تعزیت۔اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اورسماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے تدفین سے قبل منوررانا کے گھرپہنچ کرآخری دیدارکیا۔ انہوں نے اہل خانہ کو تسلی دی اورغم کی اس مشکل گھڑی میں حوصلہ دیا۔ اس سے قبل انہوں نے منور رانا کے انتقال پرتعزیت کا اظہارکیا تھا۔ انہوں نے ایکس پرایک پوسٹ میں لکھا کہ “تو اب اس گاوں سے رشتہ ہمارا ختم ہوتا ہے ۔ پھرآنکھیں کھولی جائیں کہ سپنا ختم ہوتا ہے۔” ملک کے مشہور شاعرمنور رانا کا انتقال کافی تکلیف دہ ہے۔ مرحوم کی روح کے سکون کی دعا کرتا ہوں۔ان رہنماوں کے علاوہ بھی متعدد دیگر سیاسی شخصیات نے منور رانا کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف سماجی اور تعلیمی شخصیات نے بھی منور رانا کے انتقال کو اردو شاعری میں ایک عہد کا خاتمہ قرار دیا ہے ۔بتادیں کہ شاعر منور رانا کا حقیقی نام سید منور علی تھا۔ وہ ۲۹ نومبر، ۱۹۵۲کو اتر پردیش کے مردم خیز خطے رائے بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون ہے۔منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج، رائے بریلی سے حاصل کی تھی۔ اس کے آگے کی تعلیم کے لیے انھیں لکھنؤ بھیج دیا گیا تھا۔ جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔ قیام لکھنؤ کے دوران انھوں نے وہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کی تھیں۔ اس کے بعد ان کے والد نے جو روزگار کے پیش نظر کلکتہ منتقل ہوگئے تھے، انھیں ۱۹۶۸ میں کلکتہ بلا لیا، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لے لیا تھا۔منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے میں لکھنؤ کے ماحول کے علاوہ خاص طور پر ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہد طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے تھے تاکہ ادب میں ان کی دلچسپی بڑھے اور انھیں تحریک ملے، جس نے آگے چل کر حقیقت کا روپ دھار لیا تھا۔ہرچندکہ انھوں نے اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق ۱۹۸۲میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انھوں نے جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے ۱۹۷۷میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’’منورؔرانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے تک پورے نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس مدت میں انھوں نے مشق سخن جاری رکھی اور اپنی فکر کی پرواز کو اوج کمال تک پہنچایا ۔ منور رانا کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اسے بڑی دلیری اور برجستگی سے پیش کرتے تھے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اظہار خیال کے لیے اپنی غزلوں کے الفاظ و بیان میں ملمع سازی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے تجربات ، حادثات اور عصر حاضر کے مشاہدات کو نہایت سلیقے اور جرأت مندی سے قارئین و سامعین تک اپنے اشعار کے ذریعے پیش کرتے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو معشوقہ سے ماں تک لے جانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک کم ظرف شکل وصورت والی لڑکی ہماری محبوبہ ہوسکتی ہے تو میری محبوب ماں کیوں نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
0 Comments