گذشتہ سال سات اکتوبر سے فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا مرکز بننے والی غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں نہ صرف بمباری سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں بلکہ غزہ کی آبادی کو قحط اور فاقہ کشی جیسے سنگین خطرات بھی موت سے کم مہلک نہیں۔ غزہ میں امداد کا داخلہ اسرائیلی منظوری سے مشروط ہے اور قلیل انسانی امداد بنیادی طور پر مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کے ذریعے پٹی تک پہنچتی ہے، لیکن اسے شمال کی طرف لے جانا تباہی اور لڑائی کی وجہ سے خطرات سے بھرا ہوا ہے۔
امداد کی آمد میں تاخیرنے گنجان آباد علاقے بالخصوص جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں پھنسے فلسطینیوں کی پریشانی اور غم و غصے کی سطح کو بڑھا دیا ہے۔
درجنوں لوگوں نے گذشتہ چند دنوں سے اپنی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور احتجاجی مظاہرے کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فضائی حملوں اور بمباری سے نہیں مرے مگر بھوک سے مررہے ہیں‘‘۔کیمپ میں احمد عاطف صافی نے اے ایف پی کو بتایا، "ہم قحط کی جنگ میں ہیں”۔
جبالیہ کیمپ کے رہائشیوں میں سے ایک نے تصدیق کی کہ "یہاں آٹا، تیل اور پینے کا پانی نہیں ہے۔موت بہتر ، وافر اور عزیز ترہے”۔
جب کہ بہت سے بچوں کو قطاروں میں کھڑے پلاسٹک کے کنٹینر اور پھٹے ہوئے کھانا پکانے کے برتن اٹھائے ہوئے سڑکوں پر آئے۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔
دریں اثنا شمالی غزہ کے رہائشیوں کو اپنی بھوک مٹانے کے لیے بچا ہو چارہ، گلی سڑی مکئی، جانوروں کی خوراک اور یہاں تک کہ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور کیا گیا
غزہ میں وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ محمود الفتوح نامی دو ماہ کے بچے کی موت "غذائی قلت” سے ہوئی
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سیو دی چلڈرن چیریٹی‘ نے خبردار کیا کہ "جب تک اسرائیلی حکومت غزہ میں امداد کے داخلے میں رکاوٹ ڈالتی رہے گی، قحط کا خطرہ بڑھتا رہے گا۔ پانی، صحت کی خدمات اور دیگر سہولیات تک رسائی ناممکن ہوجائےگی‘‘۔۔
0 Comments