قاسم سید
کیا اب خدانخواستہ اتحاد ملت کونسل کے صدر اور سرکردہ مسلم لیڈر مولانا توقیر رضا کانمبر ہے؟(مولانا ان لوگوں میں شامل ہیں جو جرات مندی میں حدودوقیود کے قائل نہیں)یہ سوال اور خدشہ اس لئے پیدا ہوا کہ 19مارچ کو انہیں ایک پرانے کیس میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اتفاق سے آج ہی یعنی 18مارچ کو قد آورمسلم لیڈر محمد اعظم خان کو ایک اور کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
اس سے قبل حال ہی میں معروف عالم مولانا سلمان ازہری کی ایک مبینہ اشتعال انگیزبیان کےالزام میں سنگین دفعات کے تحت گرفتاری عمل میں آچکی ہے، ابھی تک ضمانت نہیں ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ہمارے علما ئے کرام خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقہ یا مسلک سے ہو آزمائش کی دھار پر آگئے ہیں۔ یہاں مزید نام گنانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بہت تشویشناک دستک ہے جس کی گونج دور تک سنائی دے گی -اگر یہ سوچ کر ذہن جھٹک دیں کہ انکا تعلق ہم سے نہیں ہے تو یہ خود فریبی ہوگی۔ آگ کسی کا مذہب، مسلک، عقیدہ نہیں پوچھتی۔ جب بھڑکتی ہے تو آسانی سے قابو میں نہیں آتی۔ یہ الارم ہے، الرٹ ہے، ورنہ مرغان سحر مدہوش کے لئے صور اسرافیل بھی بے اثر ہے اور یہ بھی کہ زبان کا استعمال بہت احتیاط، الفاظ کے درست انتخاب اور ناپ تول کر کیا جائے۔ کسی کو کچھ بھی کہہ کر آگے بڑھ جانے کا چلن نہ پہلے درست تھا نہ آج۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے اور رہنما حضرات اس صورتحال کو کس طرح لیتے ہیں -اب تک تو افسوسناک حد تک نفسا نفسی کے مظاہر سامنے آئے ہیں -سب کو اپنا سر چھپانے کی پڑی ہے۔ مسلکی و جماعتی عصبیتوں نے بیڑا غرق کر رکھا ہے “چوز اینڈ پک“ کی پالیسی میں نمبر کی تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے مگر نجات کسی کو نہیں ملتی۔ آئیے رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے کے ساتھ سب کے تحفظ اور آبرو مندانہ زندگی کی دعا کریں۔
مضمون نگار ملک کے ممتاز صحافی اور معروف اردو اخبار "روزنامہ خبریں" کے ایڈیٹر ان چیف ہیں۔
0 Comments