نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنے والی مفاد عاملہ کی عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ کانگریسی رہنما نندنی شرما کی جانب سے دائر کی گئی اس عرضی میں ای وی ایم کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ وہ ہر طریقہ کار کے مثبت و منفی پہلوؤں پر مبنی آراء پر سماعت نہیں کر سکتی۔بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کرانے کی عرضی کانگریس کی متھرا کی ضلع کمیٹی کی جنرل سکریٹری نندنی شرما نے دائر کی تھی۔ جس پر جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ عرضی میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کو لوک سبھا انتخابات ای وی ایم کی جگہ بیلٹ پیپر سے کرانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے کہا، ’’ہم کتنی درخواستوں پر غور کریں گے؟ ہم مفروضوں کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہر طریقہ کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ ہم اس پر غور نہیں کر سکتے۔‘‘
نندنی شرما نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ای وی ایم کو لے کر اپوزیشن پارٹیوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات بیلٹ پیپر کے ذریعے کرائے جائیں۔نندنی شرما نے ای سی آئی سے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 61 اے کو منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی جو ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرانے کا حق دیتی ہے۔عرضی میں کہا گیا، ’’بیلٹ پیپر کے خلاف بوتھ پر قبضہ، بیلٹ باکس کو روکنا، غیر قانونی ووٹ، کاغذ کا ضیاع وغیرہ کے دلائل غیر منصفانہ اور غیر معقول ہیں، جب کہ ایک ای وی ایم مشین میں تقریباً 4 ہزار ووٹ محفوظ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ فی حلقہ صرف 50 ای وی ایم مشینوں کے ڈیٹا میں ہیرا پھیری کرنے سے ‘فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ’ سسٹم میں ایک لاکھ سے 1.92 لاکھ روپے تک کی انتخابی دھاندلی ممکن ہے۔
0 Comments