Latest News

دینی مدارس کے خلاف سرکاری اداروں کے اقدامات عناد پر مبنی، جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ’تحفظ مدارس کانفرنس‘ میں مدارس کی حفاظت کے لیے کئی اہم تجاویز منظور، ہمیں مدارس کی نوعیت بدلنے والا کوئی اقدام منظور نہیں: مولانا محمود مدنی۔

نئی دہلی: دینی مدرسوں کے خلاف سرکاری اداروں کے معاندانہ رویے اور اقدامات کے تناظر میں آج جمعیۃ علماء ہند کےمرکزی دفتر نئی دہلی میں’’تحفظ مدارس کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی صدارت مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے کی۔ کانفرنس میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، مظاہر علوم سمیت اترپردیش، اشرف المدارس ہردوئی کے سبھی اہم اداروں کے مہتمم و ذمہ دار حضرات شریک ہوئے۔ اپنے صدارتی خطاب میں مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ دینی مدارس کا کردار اور ان کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔آج برصغیر میں جو مساجد آباد ہیں اور دینی تشخصات زندہ ہیں ان کے پیچھے مدارس کی محنت کارفرما ہے۔ درحقیقت ہمارے اکابر کی دور رس قیادت نے مدارس کا جو مستحکم نظام قائم کیا تھا، اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ایسی عظیم نعمت کے تحفظ کی ہر ممکن جدوجہد اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آج مختلف سطحوں پر جس طرح کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے ازالے کے لیے ہمیں طویل مدتی پالیسی بنانی ہوگی اور ٹھوس و مستحکم اقدامات کرنے ہوں گے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے ادارے کو بند کرنے یا اس کی نوعیت کو تبدیل کرنے پر پوری طاقت صرف کی جارہی ہے ، لیکن ہم ایسا کوئی نظام قبول نہیں کریں گے ، تاہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایسا نظام قائم کیا جائے گا کہ جس کے تحت ہماری دینی تعلیم متاثر نہ ہو اور عصری تعلیم کےتقاضے بھی پورے ہوں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے اکابر نے اہل مدارس کو سرکاری امداد نہ لینے سے متعلق جو مشورہ دیا تھا، اس کی حقیقت واضح ہو گئی ہے، اس لیے ہمیں سرکاری امداد سے بہر صورت اجتناب کرنا ہے۔مولانا مدنی نے آئی سی ایس ای کی طر ح ایک آزاد تعلیمی بورڈ قائم کرنے بھی وکالت کی اور کہا کہ اگر ایسا نظام بن جائے توتعلیمی میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔
دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانا محمد سفیا ن قاسمی نے ذمہ داران مدارس کو مشورہ دیا کہ حساب وکتاب کو ہر حال میں درست رکھیں نیز قلیل مدتی پلان کے تحت مدارس کے ساتھ پرائمری اسکول کے قیام پر توجہ دینی چاہیے ۔ انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ نے ہر موقع پر ملت کی رہ نمائی کی ہے، اس لیے دارالعلوم دیوبند کے اشتراک سے اگر مدارس کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تو یہ ایک بہترین قدم ہو گا۔
دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نے کہا کہ مدارس و مکاتب اسلام کے چراغ ہیں، ان کی وجہ سے ہم سب ایمان والے ہیں، انھوں نے کہا کہ آزاد مدارس کو کبھی بھی سرکار ی امداد نہیں لینی چاہیے، اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا۔ تاہم بورڈ کے مدرسوں کی بقا بھی اہم ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ ہمیں اپنے اکابر بالخصوص مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور حضرت شیخ الہند ؒ کے کردار کو سامنے رکھنا چاہیے ، حضرت شیخ الہند ؒ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی ،اس سے ہمیں نصیحت ملتی ہے کہ ہمارے اکابر جدید تعلیم کو فروغ دیتے تھے۔
نائب امیر الہند مولانا مفتی سلمان منصورپوری نے کہا کہ اگر مدارس کا سلسلہ جاری رہے گا تو دین کا سلسلہ جاری رہے گا اور ورنہ دین کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی، انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند حکومت کی طرف سےکی جارہی منفی کاررائیوں کا پوری قوت سے مقابلہ کررہی ہے۔ تاہم دینی مدارس کے وفاق اور رابطہ مدارس کے اشترا ک سے ایک ٹھوس لائحہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا سید مفتی محمد صالح امین عام مدرسہ مظاہر علوم سہارن پورنے مدارس سے متعلق کارروائیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک مستقل ذیلی کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی، ان کے علاوہ مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا افضال الرحمن شیخ الحدیث مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی، مولانا شاہ عبدالرحیم مہتمم مدرسہ ریاض العلوم گرینی جونپور، مولانا عبدالرب اعظمی صدر جمعیۃ علماء یوپی، مولانا اسجد قاسمی ندوی مرادآباد، مولانا امین الحق اسامہ کانپور، مولانا عبدالقدیم ، مولانا حمزہ نائب مہتمم جامع مسجد امروہہ،مفتی جمیل الرحمن پرتاپ گڑھ، مولانا امین الحق عبداللہ کانپورسمیت کئی اہم شخصیات نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ اجلاس میں نظامت کی ذمہ داری ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہندمولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے ادا کی۔ ان تمام مشوروں کی روشنی میں ایک اہم تجویز منظور ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ
 تحفظ مدارس کا یہ اجلاس سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کے معاندانہ رویے اور اصلاح کے بجائے فساد کی کوششوں کی سخت مذمت کرتا ہے اور اسے ملک کی تعمیر و ترقی اور نیک نامی کے لیے نقصان دہ تصور کرتا ہے۔ بالخصوص آسام کے وزیر اعلیٰ اور این سی پی سی آر کے چیئرمین نے جس طرح مدارس اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف معاندانہ او رمنفی رویہ اختیار کیا ہے اور پہ درپہ اپنے بیانات کے ذریعہ ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے ، وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے ۔بالخصوص کسی ا دارے کی انفرادی انتظامی خامیوں کے نام پر سبھی دینی مدارس کو بدنام کرنے کی روش سے ان کو باز آنا چاہیے۔
تجویز میں مزید کہا گیا کہ
آزاد ( پرائیویٹ) مدارس آرٹی ای ایکٹ کی شق(5) کے تحت مستثنیٰ ہیں۔لیکن جس طرح اس ملک میں آزاددینی مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کی تعلیمی حیثیت و اہمیت پر تنقید جارہی ہے، اس کے مدنظر لانگ ٹرم میں اس کے اثرات مرتب ہونے کا غالب گمان ہے ۔اس کے مدنظر درج ذیل امور پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۔6تا 14کے بچوں کے لیے بنیادی عصری تعلیم کی فراہمی کی حتی الوسع کوشش کرنی ہو گی تا کہ وہ دینی تعلیم کے سا تھ عصری تعلیم کے حق سے بھی فیضیاب ہوسکیں۔۲ ۔ این سی پی سی آر نے 18سال تک کے بچوں کےتعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کے لیے ریگولیٹری( رہنما) خطوط تیار کیے ہیں۔ اہل مدارس ان پر عمل پیرا ہونے کی حتی الوسع کوشش کریں۔۳۔ ملکیت کے کاغذات اور تعمیری نقشے کی منظوری بالخصوصملکیت کا مکمل ثبوت ، رجسٹری ،نوٹری ، وقف نامہ ،رجسٹری ذاتی ملکیت یا ادارہ کی ملکیت، رجسٹری مع داخل خارج ،بلڈنگ کا منظور کردہ نقشہ ، پینے کا پانی ، بجلی کی سپلائی، فائرفائٹنگ کے لیے محکمہ فائر بریگیڈ سے اجازت وغیرہ کی اپڈیٹ کاپیاں اپنے ساتھ رکھی جائیں
۴۔ ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت ادارہ کے نظام کو چلایا جائے ۔
تجویز میں حساب میں شفافیت کے لیے آڈٹ کرنے بھی ترغیب دی گئی ، نیز مشورہ دیا گیا کہ مدارس کے آزاد کردار کی بقا ء کے لیے سرکار امداد سے ہر سطح پر اجتناب کیا جائے۔
اس موقع پر آئی سی ایس ای بورڈ کے طرز پرایک آزاد بورڈ کے قیام کے طریقہ عمل کا جائزہ لینے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جن میں (۱) پروفیسر فرقان قمر (۲) مولانا کلیم اللہ قاسمی (۳) پروفیسر نعمان شاہ جہاں ںپوری کوبطور رکن شامل کیا گیا ہے ۔یہ تینوں حضرات باہمی مشورے سے مزید دو نام شامل کرنے کے مجازہوں گے اورایک مہینہ میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے ۔نیز دینی مدارس کے سلسلے میں ایک مستقل کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جن میں مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند بطور کنوینر اور مولانا قاری شوکت علی، پروفیسر نعمان شاہ جہاں پوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی،حافظ قاسم باغپت،قاری نواب غازی آباد شامل ہوں گے ۔یہ کمیٹی ایک ہفتہ کے اندر میٹنگ کرے گی اور حسب مشورہ بطور رکن مزید دو تین ناموں کا اضافہ کرنے کی مجاز ہو گی۔

اجلاس میں مولانا محمدمدنی ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء اترپردیش، ذہین احمد، مولانا محمد سالم قاسمی مرادآباد، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت، مولانا محمد حامد، مولانا عبدالرحیم رائے پوری، مولانا محمد خالد مسوری، مولانا توقیر جونپور، مولانا اسعد جونپور، مولانا محمد عباس، مولانا محمد حمزہ امروہہ، مولانا محمد یامین مبلغ دارالعلوم دیوبند، مفتی ظفر قاسمی، مولاناعلاء الدین مظفرنگر، حافظ عبدالحئ خیرآباد، حافظ سعید احمد بہرائچ، قاری محمد یامین امروہہ، مفتی عبدالرحمن امروہہ، مفتی بنیامین مظفرنگر، حافظ قاسم، قاری محمد جعفرکھڈا، مولانا محمد سلمان، قاری امیر اعظم میرٹھ، مولانا ظہیر عالم، مولانا عرفان رام پور، قاری نواب، مفتی محمد حسن، مفتی قاسم رضی فیروزآباد، مولانا عابد قاسمی بلندشہر وغیرہ نے بھی شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر