Latest News

یومِ تاسیس پر خاص- دارالعلوم، دارالعلوم اور دارالعلوم دیوبند ۔ از قلم: (مفتی) محمد فہیم الدین بجنوری۔

 (مفتی) محمد فہیم الدین بجنوری 
سابق استاذ دارالعلوم دیوبند 
22 ذی قعدہ 1445ھ 31 مئی 2024ء 
فکرِ دارالعلوم کے عبقری شاعر، مادر علمی کے نبض شناس حکیم و مفکر، نابغۂ وقت، استاذِ گرامی حضرت ظفر بجنوری علیہ الرحمہ نے نصف صدی قبل، عالَمِ قلندری میں کہا تھا کہ یہ "نخل فردوسی" روزِ آفرینش سے وسعت پذیر ہے اور یہ آفاقی پنہایہوں پر چھا کر رہے گا:

ﺍﻣﺪﺍﺩ" ﻭ "ﺭﺷﯿﺪ" ﻭ "ﺍﺷﺮﻑ" ﮐﺎ ﯾﮧ ﻗﻠﺰﻡ
ﻋﺮﻓﺎﮞ ﭘﮭﯿﻠﮯ گا
ﯾﮧ "ﺷﺠﺮۂ ﻃﯿﺐ" ﭘﮭﯿﻼ ﮨﮯ ﺗﺎ ﻭﺳﻌﺖ ﺍﻣﮑﺎﮞ
ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮔﺎ
(ترانۂ دارالعلوم)

شعوری بلوغ سے قبل ہم " تا وسعت امکاں پھیلنے" کے ساز پر بالکل ایسے ہی مچل دیے ہوں گے، جیسے اول دوم میں علامہ اقبال کے درج ذیل شعر:
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل، گر کوئی دفتر میں ہے!

 کو تقریر کی کتابوں میں پڑھتے اور "دفتر" کے لفظ پر، مہتمم جامعہ حضرت مفتی جلیل صاحب نگینوی علیہ الرحمہ کے "دفتر" میں جھانکتے تھے اور شعر کی فہم وتطبیق کے تعلق سے تسکین حاصل کرتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند بنیادی طور پر اسلام کا ترجمان ہے اور ترجمان کا کمال یہ ہے کہ وہ مؤکل کے رنگ میں ڈوب جائے؛ یہاں تک کہ دوئی جاتی رہے اور دو جسم ایک جان کا نقشہ ابھر آئے، آئینہ ترجمان کا ہو اور عکس مؤکل کا، انداز و ادا کی یکسانیت ناظرین کو آنکھیں ملنے پر مجبور کردے، قصہ لسان وزبان تک محدود نہ ہو؛ بل کہ وہ مخدوم کے کمالات کا استعارہ اور زندہ حوالہ بھی قرار پائے، وہ نمائندگی کرتے کرتے مجرد مولوی سے "مولانا روم" میں تبدیل ہو جائے اور اس کی شاہ کاری وعبقریت مجسم "شمس تبریز" بن جائے، الحمد للہ دارالعلوم نے دین کی خدمت کا وہ حق ادا کیا ہے کہ آج وہ دین وملت کے ہم معنی ہے۔

ہمارے اس "طرب سنج" نے ڈیڑھ سو سال قبل اسلام کے نغمے کو اپنا ترنم دیا تھا، بادی النظر میں یہ ایک تجربہ واتفاق تھا؛ لیکن دارالعلوم نے اپنی خوش الحانی سے وہ جادو جگایا کہ اس کی آواز اسلام کے لیے عشرتِ روح بن گئی، یہ نیا "حدی خواں" قافلۂ اسلام کے لیے مہمیزِ شوق ثابت ہوا اور دھیمی رفتار سے دوچار کارواں ایک بار پھر تیز گام ہو گیا۔

حجازی مے، ہندی سفال میں آئی تو نکھر گئی، دیوبند کے نئے کشیدہ کاروں نے اپنے فن سے اس کی رعنائی میں چار چاند لگائے، قدیم پیمانوں کو قرینے عطاء ہوئے، تازہ ساغروں کی دریافت ہوئی، "اسیرانِ نو" قیامت کے بادہ کش ثابت ہوے، "پرجوش رند" گیم چینجر نکلے اور "دیوبند پڑاؤ" اسلام کی تاریخ میں سنگ میل کی طرح نمایاں ہوا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ اس جدید مے خانے کی تاسیس میں خود ساقی کوثر کی دل چسپی نے مشعل راہ کا کردار نبھایا تھا!!!!

یہ شجرۂ طیب تا وسعتِ امکاں پھیل چکا یے، ترجمان اپنے مؤکل کا مترادف بن چکا ہے، یوں تو دیوبند کی کرنیں سارے عالم کو فیض یاب کر رہی ہیں؛ لیکن بر صغیر اس کے فیوض میں نہال ہے، بلبلانِ ہند، گلستانِ دارالعلوم کے گل چیں ہیں، اسلامیانِ ہند کا گوشہ گوشہ تاجِ دیوبند کا باج گزار ہے، دو ہزار کلو میٹر سے زائد مسافت پر واقع میری رہائش دارالعلوم کی تجلی سے آئینہ خانہ بنی ہوئی ہے، یہاں بھی ہر سو دارالعلوم ہے۔
گھر میں دارالعلوم، گھر والوں میں دارالعلوم، گھر کی سرگرمیوں میں دارالعلوم، مسجد میں دارالعلوم، منبر پر دارالعلوم، محراب میں دارالعلوم، جمعہ و عیدین میں دارالعلوم، پنج وقتہ نمازوں میں دارالعلوم، مکاتب میں دارالعلوم، مدارس میں دارالعلوم، کتابوں میں دارالعلوم، خطبات میں دارالعلوم، پروگراموں میں دارالعلوم، مجلسوں میں دارالعلوم، گفتگو میں دارالعلوم، راہوں میں دارالعلوم، منزلوں میں دارالعلوم، ملاقاتوں میں دارالعلوم، واٹسپ پر دارالعلوم، فیسبک پر دارالعلوم، آن لائن دارالعلوم، آف لائن دارالعلوم، غرض! دارالعلوم، دارالعلوم اور دارالعلوم!!!!

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر