Latest News

قربانی کے پر مسرت موقع پر مسلمانانِ عالم کے نام علماء نیپال کے پیغامات۔

کاٹھمنڈو نیپال۔
ایام قربانی میں اب گنتی کے بس چند دن ہی رہ گئے ہیں،کیوں کہ ذی الحجہ کا چاند دو دن قبل(جمعہ کی شام میں) دیکھا جاچکا ہے۔ قربانی چوں کہ مسلمانوں کے دو بڑے تہواروں میں ایک بڑا تہوار ہے اور اس تہوار کو خدا کے یہاں خاصی مقبولیت حاصل ہے؛اس لیے اس کی عظمت کے پیشِ نظر علماء نیپال نے مسلمانانِ عالم کے نام زریں پیغامات جاری کیے ہیں۔
جمعیت علماء نیپال کے سابق صدر، ہردل عزیز عالم دین مولانا محمد عبد العزیز صدیقی نے کہا کہ : ' قربانی تو دراصل جان ہی کی قربانی تھی ،جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل - علیہما السلام- کے واقعے سے بخوبی معلوم ہوتاہے،مگر یہ تو بس اللہ کا فضل ہی ہے کہ اس نے جان کی قربانی کو جانور کی قربانی میں بدل کر، جانور کی قربانی ہی کو جان کی قربانی کا درجہ عنایت فرمادیاہے۔ اس لیے ہر صاحب حیثیت مسلمان کو چاہیے کہ ایام قربانی میں ضرور قربانی کرے۔ جمعیت علماء نیپال کے جنرل سکریٹری مولانا قاری محمد حنیف عالم مدنی نے کہا کہ : ایام قربانی میں جو ہم قربانی کرتے ہیں،یہ در اصل ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم -علیہ السلام -کی اپنے ہونہار سپوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔ باری تعالیٰ کو باپ بیٹے کی قربانی کا یہ مبارک عمل اتنا پسند آیا،کہ اس نے رہتی دنیا تک آنے والے ہر صاحب حیثیت مسلمان پر سنت ابراہیمی کی نقالی(نقالی،اس لیے کہہ رہاہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی جان کی قربانی دی ہے،مگر ہم خدا کے حکم کی بنا'جان' کی جگہ جانور کی قربانی کرتے ہیں)کو واجب قرار دیاہے۔ اس لیے ہر مالک نصاب شخص کو چاہیے کہ قربانی کرکے سنت ابراہیمی کو ضرور زندہ کرے۔
 جمعیت علماء نیپال کے مرکزی رکن مولانا محمد عزرائیل مظاہری نے کہاکہ: قربانی کے دنوں میں جہاں ایک طرف قربانی کرنے میں اپنے رب کے حکم کی بجاآوری ہوتی ہے، تو وہیں دوسری طرف قربانی کرنا نیکیوں کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے'۔ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ وسلم -کا ارشاد ہے کہ : اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کو قربان شدہ جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی عطا فرماتاہے،اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ نیکیوں کے آنے والے خوش گوار دنوں میں قربانی کے ذریعے خوب نیکیاں حاصل کرے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول، ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ فرمایا کہ: تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے،ہم(صحابہ) نےعرض کیا:ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ فرمایا کہ ہر بال کے بدلے نیکی۔ ہم نے کہا: اور (کیا) اون میں بھی(یہ اجر ہے) اے اللہ کے رسول؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
جمعیت علماء نیپال کے نائب صدر مولانا محمد شفیق الرحمن قاسمی نے کہا کہ : صاحب حیثیت مسلمان کے لیے قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا ہی ضروری ہے ۔ اور قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے ،جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قربانی سے زیادہ محبوب ہو۔ حضرت عائشہ -رَضی اللہ عنہا -فرماتی ہیں کہ رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔
 جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے صدر حضرت مولانا محمد شوکت علی قاسمی المدنی نے کہاکہ : قربانی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ قربانی جہنم کی آگ کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے؛چناں چہ جو شخص خوش دلی کے ساتھ اجر وثواب کی امید سے قربانی کرے گا،تو یہ قربانی اس کے لیے دوزخ کی آگ سے نجات کا سبب بنے گی۔ حضرت حسین بن علی- رَضی اللہ عنہ- سے مروِی ہے کہ رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وَسلم- نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی۔
جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے ترجمان اور سماج وادی مسلم سنگھ نیپال کے رکن مولانا انوارالحق قاسمی نے کہا کہ : عام مسلمانوں کے دل و دماغ میں قربانی کے سلسلے میں یہ غلط بات بیٹھی ہوئی ہے کہ گھر کے گارجین اور سرپرست کی طرف سے قربانی کرنا،گھر کے باقی تمام افراد کے لیے کافی ہے۔جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی صرف گھر کے گارجین پر واجب نہیں ہے!بل کہ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے ،جو نصاب کا مالک ہو؛چناں ایک گھر میں اگر کئی لوگ مالک نصاب ہوں،تو پھر سبھوں کے لیے الگ الگ قربانی کرنا ضروری ہے،کسی ایک کی قربانی سبھوں کی طرف سے کسی بھی صورت میں کافی نہیں ہوگی۔اس کی کئی ایک وجہیں ہیں ،جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ قربانی دیگر عبادات: مثلاً نماز ،روزہ ،حج اور زکاة کی طرح ایک عبادت ہے،اور جب ان سب میں کسی ایک کی طرف سے ادائیگی، گھر کے باقی افراد کے لیے کافی نہیں ہوتی ہے ،تو بھلا ایک کی طرف سے قربانی، گھر کے تمام افراد کے لیے کیسے کافی ہوسکتی ہے؟؟۔
جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد خیر الدین مظاہری نے کہا کہ: قربانی کی عظمت کا اندازہ،استطاعت اور قدرت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے حق میں وعید خداوندی سے بخوبی لگایا سکتا ہے کہ ہر صاحب حیثیت مسلمان کے لیے قربانی کی کیا اہمیت ہے؟ حضرت ابو ہریرہ -رَضی اللہ عنہ- سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے۔
 جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے نائب صدر مولانا محمد جواد عالم مظاہری نے کہاکہ : جس شخص پر قربانی واجب ہو، اس کے لیے قربانی چھوڑ کر قربانی کی رقم کسی فقیر کو دینا شرعاً درست نہیں ہے، اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور ایسے شخص کو اگر چہ صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا، لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ قربانی کرنا ایک مستقل عبادت ہے،اور غریب کی مددایک دوسری عبادت ہے۔ ایک عبادت کو بنیاد بنا کر کسی دوسری عبادت کو چھوڑنا کوئی معقول بات نہیں ہے ؛اس لیے ایام قربانی میں قربانی ہی کرے۔
 جمعیت علماء روتہٹ نیپال کے رکن مولانا قاری اسرار الحق قاسمی ،بیرگنج ابوبکر جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا محمد ابواللیث صاحب قاسمی ، ڈائریکٹر نیپال اسلامک اکیڈمی کے معاون مولانا محمد نثار احمد قاسمی اور مفسر قرآن مولانا انعام الحق قاسمی صاحبان نے مشترکہ پیغامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ :اگر کسی ملک میں حکومت کی طرف سے کسی خاص جانور کی قربانی پر روک لگی ہو ،تو پھر مسلمانوں کو چاہیے ایسے جانور کی قربانی ہر گز نہ کرے،کیوں کہ اس سے ملک میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہے اور فتنہ وفساد کا سبب بننا درست نہیں ہے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ: ہر ایسی جگہ قربانی نہ کریں ،جو برادرانِ وطن کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور قربانی کے فضلات و زوائد کو جہاں تہاں ڈالنے سے قطعی گریز کریں اور اس موقع سے ہر اس عمل سے بچیں ،جس سے ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو تکلیف ہو۔ اور قربانی کا تہوار انتہائی سکون اور سنجیدگی کے ساتھ منائیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر