ودودرہ: جب ایک 44 سالہ مسلم خاتون جو انٹرپرینیورشپ اینڈ اسکل ڈیولپمنٹ وزارت میں ملازمت کرتی ہیں، کو وڈودرہ میونسپل کارپوریشن کے کم آمدنی والے گروپ ہاؤسنگ کمپلیکس میں مکھیہ منتری آواس یوجنا کے تحت ہرنی میں رہائشی گھر الاٹ کیا گیا تووہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس گھر میں منتقل ہونے کےحوالے سے کافی خوش تھیں اور راحت محسوس کررہی تھیں ،لیکن ان کو نہیں معلوم تھا کہ اس گھر میں جانے سے پہلے ہی ان کے خلاف پڑوسی ہی ان کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ۔دراصل خاتون کے اس گھر میں جانے سے پہلے ہی، 462 یونٹوں پر مشتمل ہاؤسنگ کمپلیکس کے 33 رہائشیوں نے ایک تحریری شکایت ڈسٹرکٹ کلکٹر اور دیگر حکام کو بھیج دی، جس میں ایک ‘مسلمان’ کو سوسائٹی میں گھر دینے پر اعتراض درج کیا گیا، اور ان کی موجودگی کی وجہ سے ممکنہ “خطرہ اور پریشانی” کا حوالہ دیاگیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ کمپلیکس میں واحد مسلم ہیں۔ وڈودرہ ڈپٹی میونسپل کمشنر ارپت ساگر اور ایگزیکٹیو انجینئر برائے سستی مکانات نیلیش کمار پرمار نے اس مسئلہ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔وہیں دوسری جانب 44 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ احتجاج سب سے پہلے 2020 میں شروع ہوا جب رہائشیوں نے چیف منسٹر آفس (سی ایم او) کو خط لکھا، جس میں ان کے گھر کی الاٹمنٹ کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ہرنی پولیس اسٹیشن نے اس کے بعد تمام متعلقہ فریقوں کے بیانات ریکارڈ کیے اور شکایت بند کردی۔ اسی مسئلے کے خلاف حالیہ احتجاج 10 جون کو ہوا تھا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ میں وڈودرا کے ایک مخلوط محلے میں بڑی ہوئی ہوں اور میرا خاندان کبھی بھی یہودی بستیوں کے تصور پر یقین نہیں رکھتا تھا۔میں ہمیشہ سے یہ چاہتی تھی کہ میرا بیٹا ایک جامع سوسائٹی میں پروان چڑھے لیکن میرے خواب چکنا چور ہو گئے کیونکہ تقریباً چھ سال ہو گئے ہیں میں جس احتجاج اور مخالفت کا سامنا کر رہی ہوں اس کا کوئی حل نہیں۔ میرا بیٹا اب 12 ویں کلاس میں ہے اور یہ سمجھنے کے لیے کافی بڑا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ امتیازی سلوک اسے ذہنی طور پر متاثر کرے گا۔اسے “مفاد عامہ میں عرضی” قرار دیتے ہوئے، ‘شکایت’ میں 33 دستخط کنندگان نے ضلع کلکٹر، میئر،میونسپل کمشنر کے ساتھ ساتھ وڈودرا میں پولیس کمشنر سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس مسلم خاتون کو الاٹ کردہ رہائشی یونٹ کو “غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اور انہیں “دوسری ہاؤسنگ اسکیم میں منتقل کیا جائے”۔
0 Comments