نئی دہلی: آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈےموکرےٹک فرنٹ کے قومی صدر و سابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیة علماءآسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو خطوط لکھکر ملک میں بڑھتے ہوئے عصمت دری کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مجرمین کو سرِ عام پھانسی دینے کی وکالت کی ہے تاکہ مجرمانہ طبیعت کے لوگوں کے لئے درسِ عبرت ہو اور اُن میں اِس گھناﺅنے جرم کو کرنے کے تعلق سے خوف پیدا ہو۔ مگر یہ کام عدالت کے ذریعہ ہو جس کے لئے ہر ضلع میں فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا جائے اور مجرم خواہ کسی بھی مذہب اور ذات کا ہو اس کا جرم ثابت ہونے کے بعد اسے سزا دی جائے۔یہ خیا ل رہے کہ سرکاریں جرم ثابت ہونے سے پہلے صرف اِس بنیاد پر کہ ملزم مسلمان ہے کسی کو سزا نہیں دے سکتی ہے مگر کچھ ریاستی سرکاریں ایسا کرر ہی ہیں ، یہ رویہ اور طریقہ غیر آئینی اور خطرناک ہے جس سے جرم پر قابو نہیں پایا جاسکتا بلکہ اس سے نا انصافی کو بڑھوتری ملے گی ۔مولانا نے مزید کہا کہ 2012 میں دہلی میں ہوئے نربھیا عصمت دری کے واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور اس وقت لوگوں کے احتجاج اور غصہ کی وجہ سے عصمت دری کے مجرمین کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ جلد سزا دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور ایسا لگا تھا کہ اب اس طرح کہ واقعات کم ہوں گے مگر افسوس کہ آئے دن کہیں نہ کہیں عصمت دری کے واقعات کی خبر سے دل کانپ جاتا ہے۔انتہائی شرم کی بات ہے کہ کلکتہ کے ہاسپیٹل میں جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، اتراکھنڈ میں ایک نرس پاسپیٹل سے دیوٹی کے بعد گھر کے لئے نکلتی ہے مگر راستے میں اس کی عصمت دری کی جاتی ہے اور پھر قتل کر دیا جاتا ہے، مہاراشٹرا کے بدلاپور میں نابالغ معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا ہے، آسام کے دھینگ میں ٹیوشن سے واپس آتی لڑکی کی عصمت دری کی جاتی ہے۔یہ چند ایسے واقعات ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے موضوع بحث بن گئے ورنہ ایسے کتنے واقعات ہیں جو رپورٹ نہیں ہو پاتے ہیں یا پھر اُسے دبادیا جاتا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس گھناﺅنے جرم میں بھی مذہب اور پارٹی دیکھ کر کاروائی کی جاتی ہے، مثلا کلکتہ میں ڈاکٹر کی عصمت دری کے معاملہ میں مرکزی سرکار نے سی بی آئی سے جانچ کا حکم دے دیاجو اچھی بات ہے مگر اتراکھنڈ میں چونکہ متاثرہ مسلمان تھی اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے اسلئے اس میں لیپا پوتی سے کام لیا جارہا ہے، اسی طرح کا رویہ مہاراشٹرا میں بدلا پورکے واقعہ میں دیکھنے کو ملا۔ آسام کے نوگاﺅں ضلع کے دھینگ میں ملزم مسلمان تھا تو آسام کے وزیر اعلی اس کو ہندو مسلم رنگ دیتے ہیں اور اگلے ہی دن پولس کی کسٹڈی میں اس کی موت ہو جاتی ہے، مگر اس سے پہلے اُسی آسام کے ہوجائی علاقہ میں اور شیو ساگر علاقہ میں اجتمائی عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں مگر ان کے ملزمین کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ مولانا نے کہا کہ مرکزی سرکار کو اس سلسلہ میں واضح ہدایات جاری کرنا چاہئے اور عصمت دری کے مجرمین کو عدالت سے جرم ثابت ہونے کے بعد، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اُسے سر عام پھانسی دینی چاہئے۔
سمیر چودھری۔
0 Comments