Latest News

تبدیلئ مذہب معاملہ میں مولانا کلیم صدیقی اورعمر گوتم کو عمرقید کی سزا، این آئی اے عدالت کا فیصلہ۔

لکھنؤ: اترپردیش کی خصوصی این آئی اے عدالت نے بدھ کے روز 12 افراد بشمول مبلغ اسلام اور معروف اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی اور اسلامک دعوۃ سنٹر کے بانی محمد عمر گوتم کو 2021 کے غیرقانونی تبدیلی ئ مذہب معاملہ میں عمرقید کی سزا سنائی۔
 تبدیلی مذہب کے کیس  میں این آئی اے-اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت نے داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی، مولانا عمر گوتم اور دیگر 12 ملزمین کو قصوروار قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے دیگر 4  ملزمین راہول بھولا، مانو یادو، کنال اشوک چودھری اور سلیم کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے اور ان پر دفعہ۔کے مطابق جرمانہ عائد کیا ہے۔ عدالت نے منگل کو  ان سب کو قصوروار قرار دیتے ہوئے آج سزا کا اعلان کیا۔
این آئی اے اے ٹی ایس کورٹ کے جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے ان سبھی کو تعزیرات ہند کی دفعہ 417، 120 بی، 153 اے، 153 بی، 295 اے، 121 اے، 123 اور غیر قانونی تبدیلی مذہب قانون کی دفعہ 3، 4 اور 5 کے تحت مجرم قرار دیا۔ ان دفعات کے تحت ملزم کے لیے 10 سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا کا انتظام ہے۔ غیر قانونی تبدیلی مذہب کے اس معاملے میں کل 17 ملزمین تھے جن میں سے 16 کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔ 17ویں ملزم ادریس قریشی کو الہ آباد ہائی کورٹ سے حکم التوا مل گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مظفر نگر کے  پھلت گاؤں کے رہنے والے مولانا کلیم صدیقی نے پکیٹ انٹر کالج سے 12 ویں کرنے کے بعد میرٹھ کالج سے بی ایس سی کیا۔ اس کے بعد دہلی کے ایک میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا۔ ایم بی بی ایس کی پڑھائی چھوڑ دی اور اسلامی اسکالر بن گئے۔ مولانا نے 18 سال تک دہلی کے شاہین باغ میں اپنی رہائش گاہ رکھی۔ مولانا کلیم صدیقی کو اتر پردیش اے ٹی ایس نے 22 ستمبر 2021 کی رات دہلی-دہرا دون ہائی وے پر دورالا-متور کے درمیان گرفتار کیا تھا۔

اے ٹی ایس نے مولانا کلیم صدیقی  اور ان کے ساتھیوں کو  بڑے پیمانے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کا سنڈیکیٹ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا  تھا۔ 562 دنوں تک جیل میں رہنے کے بعد مولانا کلیم صدیقی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اپریل 2023 میں ضمانت دی تھی۔ اتر پردیش حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت عظمیٰ میں مزید سماعت شروع ہوئی، جس میں مولانا کلیم صدیقی کی ضمانت پر شرائط عائد کر دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے مولانا صدیقی کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ ان  پر این سی آر چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور عدالت نے انھیں یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے فون کی لوکیشن ہمیشہ آن رکھیں تاکہ تفتیشی افسران اسے ٹریک کر سکیں۔
مولانا کلیم صدیقی نے 1991 میں اپنا جامعہ امام ولی اللہ اسلامیہ مدرسہ قائم کیا۔ گاؤں میں کورس کرنے کے لیے ایک اسکول قائم کیا، لیکن بعد میں اسے کیرالا کے ایک ادارے کے حوالے کر دیا۔ وہ گلوبل پیس فاؤنڈیشن کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کیس میں مولانا عمر گوتم اور مفتی قاضی اور مولانا کلیم صدیقی کے دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اتر پردیش اے ٹی ایس نے الزام لگایا تھا کہ یہ سبھی مذہب کی تبدیلی کی سازش میں ملوث تھے اور غیر ملکی فنڈنگ کی مدد سے اپنی سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔
اِلزام ہے کہ ملزمین ایک تنظیم چلارہے تھے جو اترپردیش میں بہرے طلبا اور غریب لوگوں کا دھرم پریورتن کرتی تھی۔ عمر گوتم کی رہائش دہلی کے بٹلہ ہاؤز (جامعہ نگر) کی ہے۔ عمر گوتم نے ہندو دھرم چھوڑکر اسلام قبول کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تنظیم کو پاکستانی آئی ایس آئی اور دیگر غیرملکی ایجنسیوں سے پیسہ ملتا تھا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر