شملہ: شملہ کے سنجولی علاقہ کی ایک مسجد کا مبینہ غیرقانونی حصہ ڈھادینے کا مطالبہ کرنے والے احتجاجیوں کی آج پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوگئی۔ انہوں نے رکاوٹیں ہٹادیں اور سنگباری کی۔
پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے آبی توپ کا استعمال کیا اور لاٹھی چارج کیا۔ جئے سری رام اور ہندو ایکتا زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں احتجاجی سبزی منڈی ڈھلّی میں جمع ہوئے اور سنجولی کی طرف مارچ کرنے لگے۔ انہوں نے امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کی اور ضلع انتظامیہ کی وارننگ نظرانداز کردی۔
انہوں نے ڈھلی ٹنل کے قریب کھڑی کی گئی رکاوٹیں توڑدیں۔ بعض ہندو گروپس کی اپیل پر جمع ہونے والے مظاہرین سنجولی میں داخل ہوئے اور انہوں نے مسجد کے قریب دوسری بیریکیڈ توڑدی۔ پولیس کو بھیڑ کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کرنا پڑا اور آبی توپ کا استعمال کرنا پڑا۔
پولیس نے بعض احتجاجیوں بشمول ہندو جاگرن منچ کے سکریٹری کمل گوتم کو حراست میں لے لیا۔ اس نے مسجد کے قریب پھر بریکیڈ لگادیا لیکن احتجاجیوں نے وہاں سے جانے سے انکار کردیا اور اڈمنسٹریشن کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ سنجولی اور متصل علاقوں میں طلبا اسکولوں میں پھنس کر رہ گئے۔ مقامی لوگوں نے ضلع انتظامیہ کو لتاڑا کہ اس نے آج مظاہرہ کی جانکاری ہونے کے باوجود اسکول بند رکھنے کا حکم نہیں دیا۔
دھکم پیل اور سنگباری میں 2 پولیس والے زخمی ہوئے۔ بعض مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی کارروائی میں وہ زخمی ہوئے۔ شملہ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس سنجیو کمار گاندھی نے جو ڈائرکٹر جنرل پولیس اتل ورما کے ساتھ مقام ِ جھڑپ پر موجود تھے‘ کہا کہ صورتِ حال کو قابو میں لانے کی کوشش جاری ہے۔
گاندھی نے کہا کہ ہم بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن مظاہرین کا کوئی قائد ہی نہیں ہے اور بھیڑ بات سننے کو تیار نہیں۔ احتجاجیوں کے ایک قائد وجئے شرما نے تاہم کہا کہ احتجاجیوں پر پولیس لاٹھی چارج کی وجہ سے علاقہ میں حالات خراب ہوئے۔ احتجاجیوں میں شامل سنیتا نامی عورت نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے بچوں پر تک لاٹھی چارج کردیا۔ اس نے کہا کہ ہم نہ تو کانگریسی ہیں اور نہ ہی بی جے پی سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔
ہم ہندو ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ٹھیلہ بنڈی والے یہاں سے ہٹادیئے جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے سماعت مکمل ہونے تک اسٹرکچر (مسجد) کو مہربند کردیا جائے۔ ریاست میں باہر سے آنے والے سبھی افراد کا رجسٹریشن ہو اور آبادی کی بنیاد پر وینڈر پالیسی بنے۔ 95 فیصد لائسنس ہندوؤں کو ملیں۔ کئی عورتوں نے بھی احتجاج میں حصہ لیا۔ وہ ہنومان چالیسہ کی پاٹھ کررہی تھیں۔
سنجولی علاقہ کی مسجد میں غیرمجاز تعمیر کے خلاف کشیدگی بڑھنے اور ہندو تنظیموں کی طرف سے بند منانے کی اپیل کے مدنظر سنجولی اور متصل علاقوں کو بھاری پولیس فورس کی تعیناتی کے ساتھ قلعہ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ شملہ ضلع انتظامیہ نے امتناعی احکامات جاری کئے تھے۔ ہماچل پردیش کے وزیر پبلک ورکس وکرم آدتیہ سنگھ نے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ ریاستی حکومت مسجد تنازعہ میں ضروری قانونی کارروائی کرے گی۔ منگل کے دن چیف منسٹر سکھویندر سنگھ سکھو نے کہا تھا کہ مسئلہ کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ نظم وضبط کی برقراری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عوام کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن کسی بھی فرقہ کو کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔
مسجد کا جہاں تک تعلق ہے بعض منزلوں کی غیرقانونی تعمیر کا کیس میونسپل کارپوریشن کی عدالت میں ہے اور قانون اپنا کام کرے گا۔ مسئلہ کی جلد یکسوئی چاہی جائے گی۔ ہندو تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ مسجد کا متنازعہ اسٹرکچر ڈھادیا جائے۔
گزشتہ جمعرات کو ہندو گروپس نے شملہ کے چوڑا میدان میں زبردسست احتجاج کیا تھا۔ یہ میدان ودھان سبھا اور سنجولی کے قریب واقع ہے۔ آئی اے این ایس کے بموجب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شملہ میں آج کا مظاہرہ حالیہ عرصہ میں سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ ہزاروں ہندوؤں نے احتجاج میں حصہ لیا۔
0 Comments