عزیزانِ گرامی۔
آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں حق اور باطل کے درمیان معرکہ آرائی شدت اختیار کر چکی ہے۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کا زمانہ ختم ہو چکا ہے، کہ وہ ایمان اور قربانیوں کی شاندار مثالیں اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ لیکن میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ ایک لمحہ ٹھہریں اور سوچیں: کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا ہم نے مولانا کلیم صدیقی اور محترم عمر گوتم جیسے داعی اسلام کو نہیں دیکھا؟ اگر نہیں دیکھا، تو آئیے، ان عظیم شخصیات کی زندگیوں کو دیکھیں۔
عزیزو۔ حضرت مولانا کلیم صدیقی کا تذکرہ کرتے ہوئے، ہمیں وہ عظیم صحابہ یاد آتے ہیں جنہوں نے حق کی خاطر اپنی جان، مال اور عزت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ کیا مولانا کا مسکراتا ہوا نورانی چہرہ ہمیں حضرت عمار بن یاسر، حضرت خباب بن ارت، اور حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہم کی یاد نہیں دلاتا؟ وہی عظیم شخصیات جو اسلام کی ابتدا میں ظلم کی بھٹی میں جلتے رہے، مگر حق کے راستے سے نہیں ہٹے۔
مولانا کلیم صدیقی آج بھی اسی طرح حق کی راہ میں ثابت قدم ہیں، وہ ہر قسم کے ظلم و ستم کو جھیل رہے ہیں، مگر ان کا ایمان مضبوط ہے، ان کا عزم پختہ ہے۔ ان کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اسلام کی دعوت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
اب آئیے عمر گوتم کی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں۔
عزیزو! ان کی زندگی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یاد دلاتی ہے۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے، عمر گوتم بھی حضرت عمر کی طرح اسلام کے شدید مخالف تھے،لیکن اللہ نے ان کے دل کو اسلام کی روشنی سے منور کیا اور انہیں حق کا راستہ دکھایا۔
آج، وہی عمر گوتم، جو اسلام کے دشمن تھے، دین کی تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکے ہیں۔
کل، لکھنؤ کی عدالت نے ان دونوں داعیانِ اسلام پر جبری تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب یہ مردانِ حق طائف کے پتھروں اور اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں، جیسے ہمارے نبی ﷺ نے کیا تھا۔ ابوجہل کے پیروکار اپنی پوری طاقت سے انہیں کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ عظیم شخصیات ثابت قدم ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے، ان کے دل ایمان کی روشنی سے منور ہیں، اور ان کی زبانوں پر کوئی شکوہ نہیں۔
اے بھائیو۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہیں تپتی ریت پر لٹا کر عذاب دیے جاتے تھے، یہ وہی چہرے ہیں جنہیں بیڑیاں ڈال کر اندھیروں میں قید کیا جاتا تھا۔
خدا کی قسم! قیامت کے دن یہ خوش نصیب لوگ حضرت عمار بن یاسر اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
اور ہم؟
ہاں، ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرتے۔
ہم سڑکوں پر نہیں نکلتے، ہم ان کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے، ہم وہ بدنصیب ہیں جن کے دلوں میں "وہن" گھر کر چکا ہے۔
دنیا کی محبت اور موت کا خوف ہمیں حق کے لیے آواز بلند کرنے سے روکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب یہ "وہن" تمہارے دلوں میں گھر کر جائے گا، تم ذلت اور پستی کا شکار ہو جاؤ گے۔
عزیزو۔
یہ وقت بیداری کا ہے، یہ وقت ہے کہ ہم ان داعیوں کی قربانیوں سے سبق حاصل کریں۔
یہ وقت زبانی دعوے کرنے کا نہیں، بلکہ عملی قدم اٹھانے کا ہے۔
اللہ ہمیں وہ ایمان، وہ عزم اور وہ ہمت عطا فرمائے جو مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم جیسے عظیم داعیوں کے پاس ہے۔
اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
0 Comments