آگرہ: مسجد نہر والی کے خطیب محمد اقبال نے آج اپنے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو خود دعا مانگنے کے بارے میں تاکید کی، انھوں نے کہا کہ آپ خطیب سے، امام سے، مولانا سے، حافظ صاحب سے یا کسی جلسے میں اسٹیج سے پرچی بھیج کر دعا کی درخواست کرتے ہیں اور اپنی ضرورتیں اس میں لکھتے ہیں، کوئی کچھ لکھتا ہے ، کوئی کچھ لکھتا ہے ، دعا کرائیں ، لیکن احادیث میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ان لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ، ہاں جس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی دعا “ رد “ نہیں ہوتی ، کیا آپ نے کبھی اس کو پرچی دی ، کبھی اس سے درخواست کی، کہ میرے لیے دعا کریں؟ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ باپ کی دعا اولاد کے حق میں کی گئی رد نہیں ہوتی ، کیا اس سے کبھی کہا؟
دنیا بھر میں لوگوں سے منتیں کرتے پھر رہے ہیں ، لیکن جس کی دعا رد نہیں ہوتی ، اس کو نہیں کہہ رہے ہیں ، اللہ کے بندوں ! ہر گھر میں یہ دو فیکٹریاں ہیں دعاؤں کی ، ایک بڑے عالم کی ماں کا انتقال ہوگیا وہ بہت دهاڑیں ماکر رو رہے تھے کسی نے کہا کہ آپ تو ہمیں صبر کی تلقین کرتے ہیں اور آپ خود اتنی دھاڑیں مارکر رو رہے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں اس لیے نہیں رو رہا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، میں اس لیے رو رہا ہوں کہ اللہ نے میرے لیے جنت میں جانے کے دو دروازے رکھے تھے، اس میں سے آج ایک بند ہوگیا ہے ، اور پھر باپ سے یا ماں سے دعا کی نہ پرچی کی ضرورت ہے اور نہ درخواست کی ، او اللہ کے بندو تم بس ان کا خیال رکھو وہ عمر کے جس پڑاؤ پر ہیں ، تم ان کا خیال رکھو ، جیسا انھوں نے تم کو بچپن میں پالا اور پورا خیال رکھا ، آج ان کو تمہاری ضرورت ہے ، خود ان کے دل سے تمہارے لیے دعائیں نکلتی ہیں ، موسیٰ علیہ السلام جب والدہ کے انتقال کے بعد اللہ سے ملنے کوہ طور پر گئیے تو ندا آئی کہ اے موسیٰ ذرا سنبھل کر آنا ، اب تمارے پیچھے دعا کرنے والی نہیں رہی ، جب تم پہلے آتے تھے تو تمہاری ماں دعا کرنے بیٹھ جاتی تھی ، اب کوئی دعا کرنے والا نہیں ہے ، یہ ہے والدین کی دعاؤں کا معاملہ ، اس لیے سب سے پہلے اپنے گھر کی دونوں فیکڑیوں کی فکر کرو ، کسی کے پاس ایک ہے وہ اس کا خیال کرے ، جس کے پاس دونوں نہیں کبھی اس کے دل کا حال جانا ؟ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرماے، آمین۔
0 Comments