سنبھل: اتر پردیش کے سنبھل میں ایک مسجد کے دوبارہ سروے کے تنازعہ نے اتوار کو پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔ سڑکوں پر چپل، پتھر، جلی ہوئی گاڑیاں بکھری پڑی تھیں۔خبر کے مطابق سروے کے دوران ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور گاڑیوں میں آگ لگا دی۔ جواب میں پولیس کو آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس واقعے میں بیس سے زائد پولیس اہلکار اور دو درجن افراد زخمی ہوئے۔ تین نوجوانوں کے مارے جانے کی خبر ہے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق خبر لکھے جانے تک چار نوجوان مارے گئے ہیں، متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ یے کہ اموات پولیس فائرنگ سے ہوئی ہیں، وہیں یو پی پولیس نے فائرنگ سے موت ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن مین اسٹریم میڈیا اورسرکاری حلقے اس بارے میں خاموش ہیں ـ دس لوگوں کو حراست میں لئے جانے کی خبر یے۔ سنبھل شہر کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
چندوسی اسکوائر، شنکر اسکوائر، ہاسپٹل اسکوائر اور یشودا اسکوائر سمیت تمام بڑے چوراہوں پر رکاوٹیں لگا کر عام لوگوں کو روک دیا گیا ہے۔ جو لوگ ان راستوں سے گزرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا رخ موڑ کر دوسرے راستوں سے بھیجا جا رہا ہے۔ شہر بھر میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے۔ شہر کی سڑکوں پر خاموشی ہے۔ اس پرتشدد واقعے کے بعد انتظامیہ پوری طرح الرٹ ہے اور صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پرتشدد ہنگامہ آرائی کے بعد ضلع میں حالات کشیدہ ہیں۔ اس دوران کمشنر انجنیا کمار سنگھ اور ڈی آئی جی منیراج جی موقع پر پہنچ گئے ہیں۔ عدالتی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے عہدیداروں نے سبھی سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں ڈپٹی کلکٹر رمیش بابو بھی شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ اسے ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
ایس پی کا بیان
ایس پی کرشنا کمار بشنوئی نے جواب دیا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ فسادی پوری منصوبہ بندی کے مطابق پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ خاص طور پر پولیس کی گاڑیوں کو جلایا گیا جبکہ عام لوگوں کی گاڑیاں محفوظ رہیں۔ ایس پی نے کہا کہ فسادیوں کے خلاف این ایس اے لگایا جائے گا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ان کی شناخت کی جائے گی۔
تشدد کا ذمہ دار انتظامیہ:مایا وتی
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے سنبھل ضلع میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے پرتشدد ہنگامے پر یوپی حکومت اور انتظامیہ پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ مایاوتی نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کے بعد مرادآباد ڈویژن بالخصوص سنبھل ضلع میں کشیدگی ہے۔ ایسے میں یوپی حکومت اور انتظامیہ کو مسجد مندر تنازعہ کے سروے کو پرامن طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے تھا۔
اکھلیش نے سروے پر سوال اٹھائے۔
سماج وادی پارٹی کے ایم پی ضیاء الرحمان برق نے اس پیش رفت پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا، "سنبھل کی جامع مسجد تاریخی اور بہت پرانی ہے۔ سپریم کورٹ نے 1991 میں ایک حکم میں کہا تھا کہ 1947 کے بعد سے مذہبی مقامات جو بھی حالت میں ہیں، وہ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے۔” ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے بھی سنبھل تنازعہ پر حکومت کو گھیرے میں لیا ہے۔ اکھلیش یادو نے سوال اٹھایا کہ ایک بار سروے ہو گیا تو پھر دوبارہ سروے کرانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسری طرف کوئی سننے والا نہیں۔
چندر شیکھر آزاد۔
ازاد سماج پارٹی کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر ازاد نے کہا کہ سنبھل میں آج ہونے والے تشدد میں تین مسلمانوں کی جان چلی گئی۔ اس واقعے میں کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ میں جلد ہی زخمی پولیس اہلکاروں سے ملاقات کروں گا اور اس تشدد کی حقیقت کو ملک کے سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ اس کے علاوہ، میں پولیس والوں کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ان کی وردی آئین کی طرف سے دی گئی ہے اور انہیں آئین پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ 'اعلیٰ احکامات'۔ کل میں صحت یاب ہو کر اس تشدد میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے ملوں گا۔ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہوں گا کہ ہمارے لوگوں کی جانیں اتنی سستی نہیں ہیں۔
ساتھ ہی میں سنبھل کے شہریوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہم جمہوری اور پرامن طریقے سے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
یہ لڑائی صرف ایک برادری کی نہیں، بلکہ پورے ملک کے جمہوری اور آئینی حقوق کی ہے۔ آئیے ہم سب متحد رہیں اور آئین پر اپنا اعتماد برقرار رکھیں۔
(تصاویر بشکریہ امراجالا)
0 Comments