نئی دہلی ۔۱۳؍ فروری: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ تین دنوں سے جاری احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب یونیورسٹی انتظامیہ کی شکایت پر پولیس نے رات 4 سے 5 بجے کے درمیان 15 سے 20 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ ان طلبہ کو تقریباً 12 گھنٹے بعد شام 6 بجے رہا کیا گیا، مگر اس کے باوجود یونیورسٹی کے مختلف دروازوں اور دہلی کے متعدد پولیس تھانوں کے باہر احتجاج جاری رہا۔طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے تین ساتھیوں – سوربھ تریپاٹھی (پی ایچ ڈی – ہندی ڈپارٹمنٹ)، جیوتی (پی ایچ ڈی – ہندی ڈپارٹمنٹ)، اور نرنجن (قانون) کے خلاف کی گئی انتظامی کارروائی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان طلبہ پر بغیر اجازت احتجاج کرنے کا الزام عائد کیا اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔ طلبہ کے مطابق نوٹس کا جواب نہ دینے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی تھی۔یونیورسٹی کی اس کارروائی کے پیچھے اصل وجہ 2019 میں پیش آنے والے واقعات کو یاد کرنے کے لیے منعقدہ سرگرمیاں ہیں۔ 15 دسمبر 2019 کو سی اے اے-این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گھس کر طلبہ پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ ہر سال اس دن کی یاد منائی جاتی ہے، مگر اس بار انتظامیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے باوجود چند طلبہ نے احتجاج جاری رکھا، جس کے نتیجے میں انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طلبہ بغیر اجازت احتجاج کر رہے تھے اور انہوں نے کلاسز میں خلل ڈالا، مرکزی لائبریری کے باہر رکاوٹیں کھڑی کیں، اور دیگر طلبہ کو کلاس کا بائیکاٹ کرنے کے لیے اُکسایا۔ احتجاج ختم کرانے کے لیے یونیورسٹی نے سخت اقدامات کیے، جن میں کینٹین بند کرنا، بجلی منقطع کرنا، اور واش رومز کو مقفل کرنا شامل تھا۔احتجاج کرنے والے طلبہ درج ذیل چار مطالبات پر بضد ہیں:تینوں پی ایچ ڈی طلبہ کے خلاف جاری شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔یونیورسٹی کے اندر احتجاج پر پابندی لگانے والے میمورنڈم کو منسوخ کیا جائے۔دیواروں پر پوسٹر یا وال پیپر چسپاں کرنے پر 50000 روپے کے جرمانے کا خاتمہ کیا جائے۔یہ یقینی بنایا جائے کہ احتجاج میں شامل طلبہ کے خلاف مستقبل میں کوئی تادیبی کارروائی نہ ہو۔کانگریس لیڈر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبہ لیڈر مشکور عثمانی نے اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے غیر جمہوری قدم قرار دیا۔ انہوں نے فیس بک پر لکھا جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گزشتہ تین دنوں سے مسلسل احتجاج جاری تھا۔ انتظامیہ معمولی باتوں پر طلبہ کو شوکاز نوٹس دے رہی تھی اور سخت کارروائی کر رہی تھی۔ آج صبح 5 بجے، انتظامیہ نے پولیس بلا کر طلبہ کو حراست میں دلوا دیا۔ یہ ایک غلط قدم ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم دہلی پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گرفتار طلبہ کو فوراً رہا کیا جائے۔"یونیورسٹی میں جاری احتجاج سے طلبہ برادری میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ سول سوسائٹی، جمہوریت پسند تنظیمیں اور سابق طلبہ بھی اس معاملے پر اظہارِ تشویش کر رہے ہیں۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاجی طلبہ کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو اس احتجاج کے مزید طول پکڑنے اور دیگر طلبہ تنظیموں کے شامل ہونے کا امکان ہے۔دریں اثناء جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری احتجاج کے دوران طلبہ کی گرفتاری پر آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA) نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ AISA نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ صبح 5 بجے کے قریب کئی طلبہ کو جمیعہ کیمپس سے زبردستی حراست میں لے لیا گیا اور ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تنظیم کے مطابق یہ گرفتاری یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون سے کی گئی، جس میں طلبہ کو دہلی پولیس کے نامعلوم افسران نے زدوکوب کرکے حراست میں لیا۔AISA نے مزید کہا کہ طلبہ پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے۔ تنظیم کے مطابق متعدد خواتین طلبہ کو بھی غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، اور اب تک کسی بھی پولیس تھانے نے ان کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی۔ AISA نے کہا کہ یہ ایک غیر آئینی عمل ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر ان طلبہ کی موجودگی اور صورتحال کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور انہیں رہا کیا جائے۔AISA صدر کا سخت سوال – "کیا دہلی پولیس طلبہ کو لاپتہ کرنے کے دھندے میں شامل ہو گئی ہے؟"AISA کی قومی صدر نیہا نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:"انہیں کس قانونی شق کے تحت حراست میں لیا گیا ہے؟ کس اختیار کے تحت ان کی موجودگی کو خفیہ رکھا جا رہا ہے؟ کیا دہلی پولیس اب سرکاری طور پر طلبہ کو لاپتہ کرنے کے دھندے میں شامل ہو چکی ہے؟"اس معاملے پر صحافتی ادارے جرنو مرر نے بھی اپنی رپورٹ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری طلبہ کے احتجاج اور پولیس کارروائی کو غیر جمہوری قرار دیا۔ ادارے کے مطابق یہ واقعہ طلبہ کی آواز دبانے کی ایک کوشش ہے، جو کہ تعلیمی آزادی اور جمہوری حقوق کے خلاف ہے۔AISA نے اپنے بیان میں عوام، سول سوسائٹی، اور دیگر طلبہ تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ طلبہ کے حق میں کھڑے ہوں اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کریں۔ تنظیم نے کہا کہ یہ واقعہ تعلیمی اداروں میں اختلاف رائے کو دبانے کی منظم کوشش ہے، جس کے خلاف سب کو متحد ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے۔
0 Comments