نئی دہلی: مسلم تنظیموں کے رہنماؤں اور ممبران پارلیمنٹ، مذہبی قیادت اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران نے آج وقف ترمیمی بل کے خلاف تاریخی جنتر منتر پر دھرنا اور احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا اس سیاہ بل کو واپس لے تاکہ اقلیتوں کے مذہبی معاملات کی آئینی حفاظت ہوسکے اور اقلیتوں کے مذہبی اقدار کی پامالی نہ ہو۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہویے مسلمانوں نے رمضان مبارک میں 17مارچ 2025کو جنتر منتر آباد کردیاـ ہزاروں کی تعداد میں ان کی موجودگی بتارہی تھی کہ قیادت سنجیدہ ہو تو وہ سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہیں ـ اسٹیج پر کم وبیش تمام مسلم جماعتوں، ہر مکتب فکر کی موجودگی یہ احساس دلارہی تھی کہ ان کو آنے والے طوفان کا بخوبی اندازہ ہے اور اپنے فروعی و جماعتی مفادات کو پس پشت ڈال کر آئے ہیں ،علاوہ ازیں بی جے پی اتحادیوں خاص طور سے جنتادل یو اور ٹی ڈی پی کو چھوڑ کر کم وبیش ہر اپوزیشن پارٹی کی نمائندگی بتارہی تھی کہ مسلمان کیرل سے دہلی تک وقف بل کے خلاف لڑائی میں اکیلے نہیں ہیںـ مسلمانوں کی نام نہاد ہمدرد یہ دونوں پارٹیاں اور ان کے وفادار مسلم لیڈر ایکسپوز ہوگیے کہ کہ وہ کس کے ساتھ ہیںـ۔
وقف ترمیمی بل کی مخالفت اور اسے وقف جائدادوں کو ہڑپنے کی سازش قرار دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ اگر حکومت یہ بل پاس کردیتی ہے تو اس کے خلاف ملک گیر سطح پر اور ملک کے ہر گلی اور چوراہے پر احتجاج کیا جائے گا۔ یہ بات مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے منعقدہ احتجاجی جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہاکہ وقف ترمیمی بل کے خلاف لڑائی میں ہم سب کو متحد ہوکر اور ساتھ ملکر لڑنے کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام طبقوں سے اپیل کی کہ اس ظلم کے خلاف لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں۔ ساتھ انہوں نے کہاکہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس سمت میں اعلان کرے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل املاک کو تباہ کرنے اور ہڑپنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے خلاف کروڑوں مسلمانوں کی طرف سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو ای میل بھیجے گئے تھے۔ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے ملک کی بدترین صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان ایک نمونہ تھا جس کی مثال پوری دنیا میں دی جاتی تھی لیکن اب ہماری تہذیبی شناخت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ احتجاج وقف بل کے بارے میں سمجھانے کی ایک کوشش ہے۔جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کہاکہ پہلے ہمارے، گھروں، مسجدوں،مدرسوں اور دیگر مذہبی اداروں کوبلڈوز کیا گیا اور اب آئین پر بلڈوزر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہندوستان تکثیریت کی طرف جارہاہے ہمیں مل جل کر اس کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صرف روڈ اور سڑک پر احتجاج سے کام نہیں چلے گا بلکہ جیل بھی بھرنا پڑے گا۔جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہاکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس بل کی مخالفت کریں۔ انہوں نے کہاکہ اس بل کے بارے میں غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں کہ وقف بورڈ کو خصوصی رعایت دی گئی ہے جب کہ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ سب رعایت ساری مذہبی کمیٹیوں کو حاصل ہے۔ یہ ان رعایتوں کو ختم کرنے کی ایک سازش ہے۔ یہ بل صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے آئین کو بچانے کا مسئلہ ہے اور یہ دھرنا شروعات ہے اگر اس بل کو واپس نہیں لیا گیا تو پورے ملک میں دھرنا ہوگا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر عبید اللہ اعظمی نے کہا کہ ہندوستانی آئین ہمارے تمام مذہبی معاملات کی حفاظت کی ذمہ داری دیتا ہے، جس طرح نماز اور روزے ہمارے لیے ضروری ہیں، اسی طرح وقف کی حفاظت بھی ہمارے لیے ضروری ہے، حکومت کو وقف کی زمین کو تباہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی، لیکن حکومت نے وقف کی بنیاد پر اس پر قبضہ کرنے کے لیے قانون بنایا، لیکن ہم نے اس کو قبول نہیں کیا۔ ہندوستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہم نے ہمیشہ کے لیے قربانی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے حقوق چھین رہی ہے، ان کی زبان، ان کا لباس چھین رہی ہے۔حکومت کو وقف اراضی پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی لیکن حکومت نے وقف اراضی پر قبضہ کرنے کا قانون بنایا۔ ہم نے ہندوستان کو غلامی کی بنیاد پر نہیں، وفاداری کی بنیاد پر قبول کیا ہے۔ ہندوستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے کہا کہ ’’جب ایودھیا کے رام مندر بورڈ میں کسی مسلم کو شامل نہیں کیاجاسکتا تو وقف بورڈ میں ہندو کو کیسے شامل کیاجاسکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کی جائیداد چھیننے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو باتیں تیس برس قبل بند کمروں میں ہوتی تھیں وہ اب کھلے اسٹیج سے کہا جارہا ہے۔ ملک میں جو حالات بنائے جارہے ہیں ویسا ہی جرمنی میں بھی ہوا تھا۔‘‘ اسدالدین اویسی نے کہا کہ جو بل بی جے پی لے کرآرہی ہے، اس کی ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو حمایت کرتی ہیں۔ اس لئے میں چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگرآپ نے اس بل کو منظور ہونے میں ساتھ دیا تو ملک کا مسلمان کبھی نہیں معاف کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے لے کرآرہی ہے۔ اس سے مسلمانوں کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ انہوں نے اس موقع پربل سے متعلق جوشکوک وشبہات ہیں اورجو اعتراضات ہیں، اس کا بھی ذکرکیا۔مولانا کلب جواد نے کہاکہ ’’کہاجارہا ہےکہ یہ وقف کی ترقی کےلیے بل ہے لیکن میں نے یہ پہلے ہی کہا تھا کہ یہ وقف بل نہیں یہ سانپ کا بل ہے، اس کے اندر زہر بھرا ہوا ہے، یہ صرف اور صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کےلیے بنایاگیا ہے۔ یہ صرف اور صرف تباہ وبرباد کرنے کےلیے بنایا گیا ہے اور کٹر واد کو خوش کرنے کےلیے بنایاگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے کہ نفرت کے ذریعے سے حکومت کریں گے، ہندوستان محبت کی زمین ہے، یہاں اگر نفرت کا بیج بوئیں گے تو بیج سڑ جائے گا، لہذا آپ محبت کا پیغام دیں نفرت کا پیغام نہ دیں‘‘۔ ممبر پارلیمنٹ پپو یادو نے کہاکہ پہلے اس ملک کے سناتن کے ماننے والوں کو کروڑوں لوگوں کو مبارک باد، ان کی سازش بے نقاب ہوگئی، مودی جی سے ایک اپیل ہے ابھی لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ سیاسی احتجاج ہے، میں نے کہاکہ منڈل کا بھی احتجاج تھا، کمنڈل کا بھی احتجاج تھا، مینا آندولن تھا، گجرات آندولن ہوئے، سبھی طرح کے وچار اور آزادی سے جینے کےلیے کوئی شخص ساشن ہوجائے تو مرتا کیا نہ کرتا، ہمارے پاس مرنے کا جذبہ ہے، جہاں روشنی ہے وہاں اندھ کار نہیں ہے اور جہاں ڈر ہے وہاں اسلام نہیں ہے جہاں اسلام ہے ڈر نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مودی جی کو مسلمان سے نفرت نہیں ہے عرب میں جاکر سر جھکاتے ہیں، محبوبہ صاحبہ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ بورڈ عاملہ رکن مولانا ابو طالب رحمانی نے کہاکہ ’’جے سی پی نے بڑی ناانصافی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وقف کی زمینیں دیش کی زمینیں دیش میں ہی رہیں گی، انہوں نے جے پی سی سے کہاکہ آپ نے جس طرح اسٹیک ہولڈروں کو چھوڑ کر نان اسٹیک ہولڈروں سے بات کررہے تھے مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ بھارت کے بعد شاید آپ سری لنکا جانے والے ہیں۔ وہاں پوچھنے والے ہیں لوگوں سے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں بنگلہ دیش کی حسینہ اچھی لگتی ہے ہندوستان کا حسین اچھا نہیں لگتا‘‘۔ بورڈ کے سکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے کہاکہ ’’ہمارے لیے یہ بات نہایات افسوسناک ہے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے واضح کردیا کہ وہ وقف بل میں ترمیمات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وہ مخصوص ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔ ہماری طرف سے یہ بات جب کہی گئی کہ ہم اس سلسلے میں آگے بڑھیں گے اور احتجاج ہوسکتا ہے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاہین باغ کی طرز پر کوئی احتجاج کیاجائے ، تو کہنے والے نے یہ کہا کہ جلیانوالہ باغ کو نہیں بھولنا چاہئے۔ ہم ان کو یہ یاد دلاناچاہتے ہیں جنرل ڈائر کے راستے پر چلناچاہتے ہیں تو سن لیجئے آپ کی گولیاں کم پڑجائیں گی، ہمارے سینے کم نہیں پڑیں گے، آپ کسے دھمکی دے رہے ہیں کس قوم کو مخاطب کررہے ہیں، کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو خون کی ننھی منی ندیوں سے چل سکیں گے، سن لیجئے کہ ہم وہ ہیں کہ خون کے بحر قلزم سے بھی داستان عزم و عزیمت لکھ کر دکھادیں گے، انہوں نے کہاکہ ہمیں ہتھکڑیاں پہننی پڑی تو پہنیں گے لیکن ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ احتجاجی مظاہرہ میں جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند، جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ مختلف ملی تنظیموں کے رہنماؤں نے حمایت دیتے ہوئے احتجاج میں حصہ لیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیرمولانا اصغرعلی امام مہدی، جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی، سابق رکن پارلیمنٹ اور پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا عبیداللہ خان اعظمی، معروف شیعہ عالم دین اورانڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدرمولانا کلب جواد اورمولانا محسن نقوی ،کانگریس جنرل سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ ڈاکٹرسید ناصر حسین، سہارنپور کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود، ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، رکن پارلیمنٹ عمران مسعود، بہارکے پورنیہ کے رکن پارلیمنٹ پپویادو، سماجوای پارٹی کے رکن پارلیمنٹ دھرمیندریادو، ایودھیا کے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد، رام پورکے رکن پارلیمنٹ مولانا محب اللہ ندوی، سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق، عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان، سابق رکن پارلیمنٹ کنوردانش علی، سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب کے علاوہ وغیرہ نے بھی احتجاج میں حصہ لیا۔بتادیں کہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے جاری احتجاج کے درمیان دہلی کے جنتر منتر پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔ اور وقت ہوتے ہی احتجاج کو ختم کرادیاگیا۔
سمیر چودھری۔
0 Comments