Latest News

گلستانِ علم وفضل کی بہار-حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی۔

از: مفتی محمد ساجد کُھجناوری مدیر ماہ نامہ صدائے حق گنگوہ۔ سہارنپور 
09761645908

شمسی کیلنڈر کی پندرہ جولائی جب بھی آتی ہے تو اس حسین اور دلنواز شخصیت کا نقش قلب و دماغ پر ماسوا ہوجاتا ہے جسے ہماری طرح کے آپ کے ہزاروں عقیدت کیش حبیب الامت حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی رشیدی کی صورت میں دیکھتے اور آپ سے استفادہ کرنے میں سکون قلبی محسوس کرتے تھے، افسوس کہ آج ہی کی تاریخ 15/ جولائی 2020ء میں بعمر 63 سال آپ مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا محمد ادریس حبان رحیمیؒ کسی بڑے علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے نہ کسی ہمالیہ نما ہستی کے نسبی وارث و جانشین کہ جہاں نسبتوں اور راحتوں کی فراوانی سے حضرت انسان راتوں رات شہرتوں اور عظمتوں کا طواف کرلیتا ہے، پھر اسے دنیا کے بازیچۂ اطفال ہونے اور شب و روز کا تماشا دیکھنے کا اذعان بھی ہو ہی جاتا ہے۔ یقینا ایسے نصیبہ ور افراد ہر زمان و مکان میں رہتے ہیں۔
لیکن ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد ادریس حبان رحیمی تو اس قافلہ علم و فضل کے فرد خوش خصال تھے جہاں یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم، توکل و رضا، جہد مسلسل، خوداعتمادی، جگر سوزی اور صبر و شکر جیسی صفات محسوس و مشاہد تھیں اور یہی ان کا متاع کارواں بھی تھا۔ بالفاظ دیگر وہ نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز کا رخت سفر باندھنے والے آخری شب کے بے تکان مسافر تھے۔
کسے خبر تھی کہ ضلع مظفر نگر یوپی کے تین ہزار سال پرانے تاریخی قصبہ چرتھاول میں ایک خالص تجارتی خوش حال شیخ الانصار خانوادہ میں جنم لینے والے محمد ادریس حبان مستقبل کے نامی گرامی حکیم، ڈاکٹر، عالم، فاضل، شیخ طریقت اور علامہ ابن سیرین کے ہم مذاق ہوں گے کہ جن کے نام و کام کی خوشبو سے ملک کا شمال و جنوب مہک اٹھے گا۔
چنانچہ تسمیہ خوانی، ابتدائی تعلیم و تحفیظ القرآن کے مراحل محض نو برس کی عمر میں ایسے خدارسیدہ مدرسین کے سامنے طے ہوئے جنہیں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہٗ جیسے پاک دل و پاکباز انسانی فرشتوں سے تلمذ و مصاحبت کا شرف حاصل تھا۔ لہٰذا بچپن سے ہی طبع مستقیم پر تشکیل پانے والا شاہین نئے انفس و آفاق کی جستجو اور آسمان علم کے سیر و سپاٹے بھرتا رہا۔
فکر و دانش کے مزید موتیوں سے اپنا دامنِ مراد بھرنے والے طواف دشت جنوں کے مالک محمد ادریس حبان چرتھاؤلی اپنے خاندانی بزرگوں کے مشورہ سے جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے متعلم بن گئے، جس کی مثالی تعلیم و تربیت کا شہرہ شیخ الحدیث اور شارح بخاری حضرت مولانا سلیم اللہ خان کے بقول دیوبند و سہارن پور کے مرکزی اداروں کے بعد مغربی یوپی کے دوسرے اداروں سے زیادہ تھا۔۔رشیدیت اور تھانویت جیسی نسبتوں کے سنگم مدرسہ ”اشرف العلوم رشیدی“ میں آپ نے درس نظامی کا نصاب پڑھا، قبل ازیں مدرسہ خادم العلوم باغونوالی بھی آپ کا مادر علمی رہا ہے جہاں کے اہل علم کا تذکرہ آپ کی زبان پر رہتا تھا اور وہاں کی نسبت ”رحیمی“ تو آپ کے نام کا جزو لاینفک بن گیا۔
تعلیم کے ساتھ تربیتی ذوق آپ کے مزاج کا حصہ تھا اسی لئے مدیر جامعہ حضرت مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا وسیم احمد سنسارپوریؒ سے تربیت کے اسباق لیتے رہے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب قصبہ گنگوہ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی آخری نشانی ارسطو زماں حضرت مولانا حکیم عبدالرشید محمود عرف ننھومیاںؒ کی علمی مجالس سے آباد تھا۔
حضرت حکیم صاحبؒ کے برادرحقیقی الحاج مصطفی کامل اعرابیؒ صاحب اپنی نسبت رشیدی اور پرکشش شخصیت کے ذیل میں مرجع خلائق تھے۔ ہمارے ممدوح مولانا حبان صاحبؒ جو زیارات اکابر کے حریص اور نسبتوں کے قدردان تھے، بھلا اس میخانہ سے کیوں کر محروم رہتے؟ چنانچہ آپ نے خارج اوقات میں حکیم ننھومیاں اور حاجی مصطفی کامل رشیدی سے منسلک رہ کر طبی و روحانی زینے طے کئے۔ فن طبابت میں آپ مذکورہ گھرانے کو ہی اپنی پہلی اور آخری درس گاہ قراردیتے تھے اگرچہ پانڈی چیری یونیورسٹی سے آپ پی ایچ ڈی ہولڈر تھے۔
حضرت مولانا حکیم محمد ادریس حبان رحیمیؒ علم و عمل کی شمع لے کر آگے بڑھے تو تقدیری فیصلے انہیں اپنے وطن سے تقریبا اڑھائی ہزار کلومیٹر دور کرناٹک کے شہر گلستاں بنگلور لے گئے جہاں بہت مختصر سا زاد سفر رکھنے والے حضرت رحیمیؒ کسی باعزت ملازمت کے متلاشی تھے۔ معاشی احوال ناسازگار، جائے ملازمت ندارد اور نشان منزل موہوم، لیکن مضبوط اعصاب کے مالک مولانا رحیمیؒ ہواؤں کے دوش پر چراغ جلانے کا ہنر رکھتے تھے۔ اس لئے یاس و قنوطیت سے لڑتے ہوئے ساحل مراد پر آپہنچے۔ شبِ ظلمات اس طرح کافور ہوئی کہ کسی محسن کے مشورہ سے اسلام پور بنگلور کی جامع مسجد کے امام و خطیب بن گئے۔ اس خدمت پر مامور ہونے سے آپ نے راحت کی سانس لی۔ یہاں سے تعارف کا دائرہ وسیع ہوا تو شہر کے تبلیغی مرکز سلطان شاہ شیواجی نگر بنگلور کے بانیین میں ایک نام آپ کا شامل ہے۔ آپؒ سلطان شاہ کے پہلے امام ہوئے لیکن بعد میں مصروفیات کی بناء پر امامت سے سبکدوش ہوئے اور اسماعیل تابش مرحوم بانی و ایڈیٹر روزنامہ پاسبان بنگلور کے اصرار پر مسجد یقین شاہ ولی نزد ودھان سودھا بنگلور کے عرصہ دراز خطیب رہے۔
بعدہٗ دو سال مدرسہ کاشف العلوم ہوسلی بنگلور میں منصب اہتمام پر فائز رہے جہاں آپ نے اپنی علمی و انتظامی استعداد کا لوہا منوایا۔ سن 1989 میں قائم کردہ اپنے مدرسہ و مسجد دارالعلوم محمدیہ کے منصب نظامت و خطابت پر مامور ہوئے۔ اس طرح کم و بیش پینتالیس سال تک آپ نے امامت و خطابت کے فرائض خوش اسلوبی سے نبھائے۔ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی علم و مطالعہ اور قلم و کتاب کا ستھرا ذوق رکھنے والے قابل انسان تھے۔ انھیں بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا ملکہ تھا۔ وہ نہایت خوش خط اور زود نویس قلم کار تھے۔ فروغ ِصحافت و ادب ان کی دلچسپیوں کا سامان تھا، اسی لئے چاردہائیوں سے زائد عرصہ تک انھوں نے بنگلور اور ہندوستان بھر کے رسائل و جرائد، اخبارات اور روزناموں میں مضامین اور کالم لکھے۔ اسی ذوق قلمی کے نتیجہ میں آپ نے ”نقوش عالم“ کے نام سے شہر بنگلور سے ماہانہ رسالہ شروع کیا جس کا اداریہ بھی آپ ہی کے قلم کا مرہون ہوتا تھا۔ اس مقبول مجلہ کے کئی خاص شمارے بھی آپ نے بڑے اہتمام سے چھاپے جنھیں علمی اور صحافتی حلقوں میں پذیرائی ملی۔ آپ متنوع اور مختلف موضوعات پر یکساں معلومات رکھنے والے اہل قلم عالم دین تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے دعوت و ارشاد، تعلیم و تربیت، تزکیہ و تصوف، زبان و ادب جیسے موضوعات پر وافی شافی لکھا ہے۔
اسی طرح شخصیات و اعلام اور تذکرہ نویسی پر بھی اپنے قلم کو سلامی دی ہے، جبکہ فن طب پر تو آپ کی متعدد کتب مطبوع ہیں۔ حضرت مولانا کے قلم کی روانی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ کی بعض کتابیں کئی کئی جلدوں پر محیط ہیں۔
آپ کے انتقال سے چند سال پہلے تفسیری خطبات حبان کا مطبوع سلسلہ بھی آپ نے شروع کررکھا تھا، اس کی پہلی تقریب رونمائی میں خاکسار کو بھی شرکت کی سعادت میسر آئی تھی۔ ایک سو پچاس سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل لکھنے والے مولانا حبان رحیمی دعوتی، علمی اور روحانی اسفار بھی رکھتے تھے۔ آپؒ نے ملک بھر کی کئی ریاستوں کے علاوہ بیرون ممالک کا سفر کیا جہاں علمی و ادبی تقریبات اور طبی فورم سے خطاب بھی کیا۔
حضرت مولانا کے افادہ و فیضان کا سفر کئی جہات سے جاری و ساری تھا۔ آپ ماہر نباض حکیم و ڈاکٹر، روحانی معالج، تعلیمی و ملی دانشور، سماجی خدمت گار اور اپنے معاشرہ سے مربوط رہنے والے روشن فکر انسان تھے۔ انھیں اتحاد بین المسلمین کا خاصا ادراک تھا جس کیلئے وہ اپنے مسلک پر آنچ آئے بغیر ملی اتحاد کیلئے عملاً کوشاں رہتے تھے۔
ویسے بھی آپ رقیق القلب انسان تھے، ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہنا، مظلوموں کی داد رسی اور بے سہارا لوگوں کی دست گیری ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ اپنے اساتذہ اور مشائخ کا بے حد احترام کرتے، ان کی مالی خدمت اور اشک شوئی کا بساط بھر جتن کرتے اور سب سے بڑھ کر ان کی زندگی میں سنتوں کا اتباع نظر آتا تھا۔
ان کا ظاہر و باطن تناقضات اور نفاق عملی سے دور تھا۔ ظاہری اعتبار سے وہ کتنے پرکشش اور خوب صورت تھے اس کی ترجمانی کیلئے معروف ادیب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مرحوم کی ذیل کی یہ شہادت آپ بھی پڑھ لیجئے جو آپ کی سوانح عمری ”آئینۂ حبیب الامت” میں مرقوم ہے۔
شاہ جی لکھتے ہیں:
”مولانا محمد ادریس حبان صاحب سے مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری کی معیت میں پہلی ملاقات ہوئی، خندہ پیشانی سے ملے، اپنائیت سے گفتگو کی، حسن سلوک کا معاملہ کیا، ان کی ایک ایک ادا سے نظافت اور عمدہ ذوق کا اظہار ہوتا تھا، اللہ نے انھیں مردانہ حسن سے نوازا تھا، خوب صورت چہرہ، بھرے بھرے گال، رنگ سفید، کچھ سرخی سی چھائی ہوئی، آنکھیں نیک زندگی کا مظہر، لہجہ شائستہ، زبان شیریں، آواز دھیمی، لباس موزوں، دلکش اور من موہنی شخصیت، ایسی شخصیت جسے دو گھڑی دیکھتے رہنے کو دل چاہے، نظریں ہٹانے پر طبیعت آمادہ نہ ہو، پہلی ملاقات سے ہی انہوں نے اپنا گرویدہ بنالیا”۔
یہ حکیم صاحب کا ظاہری بیانیہ تھا جبکہ راقم الحروف کے نزدیک ان کا باطن اس سے کہیں زیادہ روشن تھا، رحمہ اللہ تعالی۔
یقینا علم، عمل اور اخلاق کی تثلیث رکھنے والے مخدوم گرامی حضرت مولانا محمد ادریس حبان رحیمیؒ جیسے نرگسی لوگ ہر روز پیدا نہیں ہوتے۔ وہ رخصت ہوئے تو آنکھوں میں آنسو دے گئے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے باقیات صالحات میں آپ کے فرزند والاصفات مشفقم ڈاکٹر محمد فاروق اعظم حبان قاسمی، مولانا محمد عثمان حبان دلدار قاسمی، حکیم محمد عدنان حبان نوادر اور دیگر اولاد و احفاد، آپ کے مجازین و تلامذہ آپ کے مشن و کاز کا خوب صورت اعلامیہ ہیں۔
جبکہ دارالعلوم محمدیہ، مرکزی جامع مسجد، خانقاہ رحیمی، ڈی ایم کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اور رحیمی شفاخانہ، آر ایس کے ہربل، یونیورسل طب یونانی فاؤنڈیشن اور ماہنامہ نقوش عالم ان کے جاری صدقات کے بہترین نمونے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت حبیب الامتؒ کی کامل مغفرت فرمائے اور فردوس بریں آپ کا جنتی مکان، این دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر