آگرہ: مسجد نہر والی سکندرا کے خطیب محمد اقبال نے آج خطبہ جمعہ میں نمازیوں کو ملک کے ایک بہت نازک مسلہء پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی باریکی سمجھانے کی کوشش کی ، انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی شخص ایسی حالت میں ہو کہ اس کی جان کو حقیقی خطرہ لاحق ہو اور اس پر کچھ لوگ زبر دستی کوئی کلمہ کفر یا شرک کہلوانا چاہیں ، تو اسلامی تعلیمات اور اصول یہ ہے کہ دل ایمان پر مطمعن ہو اور زبان سے صرف مجبوری میں کہا جائے ، تو ایسی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوگا ، اس کی اصل دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے سورہ النحل آیت نمبر 106 جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ تعالٰی کا انکار کرے وہ قابل عذاب ہے ، سواے اس کے جسے زبر دستی مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمعن ہو ، اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس وقت ایسے کلمات ادا کرکے اپنی جان بچا سکتا ہے ، طبرانی کی حدیث نمبر 37037 کا خلاصہ بھی یہ ہی ہے ، اسی طرح کا واقعہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا ، انہیں اور ان کے والدین کو سخت اذیتیں دیں ، ان کے والدین شہید ہوگئے ، اور عمار رضی اللہ عنہ نے اپنی جان بچانے کے لیے زبان سے کچھ کفریہ کلمات کہہ دیے ، مگر دل ایمان پر قائم رہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا " تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو عمار نے کہا ایمان پر مطمعن ہے " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر وہ پھر مجبور کر یں تو تم بھی پھر کہہ دینا " خلاصہ رہنمائی کے لئے یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان زبردستی اور جان بچانے کی حالت میں کچھ کلمات کفریہ کہنے پر مجبور ہو جاے تو وہ زبان سے کہہ سکتا ہے ، دل میں انکار رکھے اور ایمان پر قائم رہے ، تو یہ گناہ نہیں ، اصل مطلوب یہ ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو اپنی جان ، ایمان اور عزت کا تحفظ کرے ، اور اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی کی دعا کرتا رہے ، حالات ضرور بدلیں گے ان شاءاللہ ہمیں مایوس ہو نے کی ضرورت نہیں ، ان ہی حالات میں خود کو ثابت قدم رکھنے کی کوشش کریں ، اور حالات کا مقابلہ " حکمت " سے کریں _

0 Comments