Latest News

اُتر پردیش اسمبلی انتخابات 2022، ’ابا جان‘ کے بھروسے یوگی۔

اداریہ: جدید مرکز، لکھنؤ، مؤرخہ ۱۹ تا ۲۵ ستمبر، ۲۰۲۱
’ابا جان‘ کے بھروسے یوگی: حسام صدیقی
اترپردیش کی ترقی سے متعلق ایک اشتہار میں کولکاتا کے ایک فلائی اوور اور امریکہ کی انڈسٹریز کی تصویر شائع کرانے اور فیروز آباد سمیت کئی شہروں میں ڈینگو بخار کی وجہ سے مررہے سیکڑوں بچوں کا علاج نہ کرا پانے جیسے سنگین معاملات میں پھنسے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اچانک’ابا جانکا سہارا لینا پڑا۔ بارہ ستمبر کو انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے پہلے صفحہ پر یوگی آدتیہ ناتھ کی آدم قد تصویر کے ساتھ ایک اشتہار شائع کرایا گیا جس کی سرخی تھی ’ٹرانسفارمنگ‘ اترپردیش یعنی مکمل طورپر تبدیل ہوتا اترپردیش۔ اس اشتہار میں ویسے تو صرف لفاظیاں ہی تھیں لیکن وہ لفاظیاں متن میں تھیں اس لئے لوگوں کا دھیان ادھر نہیں گیا لیکن اشتہار میں ایک فلائی اوور اور کچھ انڈسٹریل یونٹ کی تصاویر یوگی کی تصویر کے ساتھ لگی تھیں۔ یہ فوراً پکڑ گئیں۔ صبح سے ہی سوشل میڈیا پر خبر چھا گئی کہ یوگی نے اپنے اشتہار میں کولکاتا کے فلائی اوور اور امریکہ کی انڈسٹریز کی تصاویر چوری کرکے شائع کرائی گئی ہے۔
یوگی کو بھی یہ احساس ہوگیا کہ اس اشتہار سے ان کی چوری پکڑی گئی جس کا جواب دے پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اسی دن وہ کشی نگر میں ایک پبلک میٹنگ کرنے گئے تھے تو خود کو اشتہار کی جواب دہی سے بچانے کے لئے انہوں نے عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا کام شروع کردیا۔ انہوں نے بھیڑ میں اکٹھا لوگوں سے سوال کیا کہ آپ کو راشن مل رہا ہے کہ نہیں، لوگوں کا جواب تھا کہ ہاں مل رہا ہے۔ یوگی نے آگے کہا کہ ۲۰۱۴ سے پہلے سارا غلّہ ’ابا جان‘ کہنے والے کھا جاتے تھے۔ سامنے کھڑی بھیڑ نے سمجھ لیا کہ ۲۰۱۴ سے پہلے سارا غلّہ مسلمان کھا جاتےتھے۔ کیونکہ مسلمان ہی اپنے والد کو ابا جان کہتے ہیں اور تو کوئی ابا جان کہتا نہیں ہے۔ اس طرح یوگی نے اترپردیش خصوصاً کشی نگر کے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نفرت بھردی کہ مسلمان تو ان کے حصے کا غلّہ کھا جاتے ہیں۔ کیا یوگی کا یہ کہنا کریمنل مقدمے کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور کیا یوگی کو اسمبلی الیکشن جیتنے کے لئے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں نظر آتا؟
مغربی اترپردیش کے فیروز آباد سمیت کئی اضلاع میں ڈینگو بخار سے سیکڑوں بچوں کی موت ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے لیکن بچوں کے علاج کا کوئی معقول انتظام بڑ بولے یوگی کی سرکار نہیں کرپائی۔ فیروز آباد کے ضلع اسپتال کے باہر کئی بچوں نے اپنے والدین کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا لیکن اسپتال میں انہیں نہ جگہ ملی نہ علاج، اسٹریچر اور ایمبولنس تو خواب و خیال کی باتیں ہوگئیں۔ اس بدانتظامی کےلئے سرکار کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے یوگی نے ابا جان کا راگ چھیڑ دیا۔ ابا جان کہنے والے ۲۰۱۴ سےپہلے سارا غلّہ کھا جاتے تھے یہ کہہ کر یوگی نے مسلمانوں کی توہین کی ہے۔ انہیں بات تو اشتہار میں شائع چوری کی تصاویر اور فیروز آباد میں بچوں کی اموات پر کرنی چاہئے تھی۔
 ووٹوں کے لالچ میں یوگی اپنی سطح سے اتنا گر گئے کہ انہوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کو بھی اخلاقی طور پر غلط نہیں سمجھا۔ انہیں جواب دینا چاہئے کہ آخر اس طرح مسلمانوں پر حملہ کرنے کا اختیار انہیں کسنے دے دیا؟ جہاں تک غلّے کا سوال ہے تو اترپردیش میں جو غلّہ گھوٹالا ہوا تھا وہ بی جے پی، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی تینوں پارٹیوں کی سرکار کے دوران ہوا تھا۔ غلّہ کھانے اور اسے نیپال اور بنگلہ دیش تک میں فروخت کرنے کے الزام میں جتنے لوگوں پر مقدمہ چلا وہ سبھی ’اباجان‘ نہیں ’پتا جی‘ کہنے والے لوگ تھے۔ پھر یوگی اتنا بڑا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں۔
جہاں تک یوگی کے اشتہار میں کولکاتا کے فلائی اوور اور امریکہ کی کچھ انڈسٹریز کی تصویر چھپنے کی بات ہے انڈین ایکسپریس نے اخبار بازار میں آنے کے فوراً بعد یہ صفائی دے دی کہ اشتہار میں یہ تصاویر استعمال کرنے کی غلطی اس کے ڈیزائن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ہو گئی۔ یہ صفائی تو محض یوگی سرکار کی ساکھ بچانے کی ایک کوشش تھی۔کیونکہ اوّل تو اشتہار سرکار کا انفارمیشن محکمہ بناتا ہے۔ اگر کوئی اشتہار اخبار کے ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے تو اسے سرکار میں بیٹھے افسران سے وزیراعلیٰ تک کئی لوگ دیکھ کر اسے منظوری دیتے ہیں۔ اگر اخبار کے ڈیزائن ڈپارٹمنٹ سے غلطی ہوئی تھی تو وزیراعلیٰ اور ان کے سینیئر افسران کو یہ تو سوچنا چاہئے تھا کہ آخر جس فلائی اوور کو دکھایا گیا ہے وہ اترپردیش میں کہاں بناہے؟ یہ نہ تو کسی کی لاپروائی ہے نہ غلطی یہ جان بوجھ کر کی گئی ایک حرکت ہے۔ اشتہار شائع کرانے والوں نے جان بوجھ کر چوری کی تصاویر کا استعمال کیا۔ اس خیال سے کہ اس قسم کے اشتہارات پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر