Latest News

کسان مہا پنچایت سے بے چین سرکار، کیا ہونگے یوپی الیکشن کے نتیجے؟



مظفر نگر: کسانوں کی مہا پنچائت میں کسانی بلوں کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ دنگائیوں اور فرقہ پرستوں کی بھی جم کر مخالفت کی گئی۔ مظفر نگر میں ہوئے فسادات کے آٹھ سال بعد جب راکیش ٹکیت نے ’اللہ اکبر‘ اور’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے لگوائے تو ہندو مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے فرقہ پرستوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں ملک خصوصاً مغربی اترپردیش میں نفرت کا جو ماحول بنایا گیا اس ماحول میں’اللہ اکبر‘ کے ساتھ ’ہر ہر مہا دیو‘ کے نعرے لگوانا بہت ہی ہمت کا کام تھا جو ٹکیت نے کیا اور مہا پنچائت میں اکٹھا ہوئے لاکھوں کسانوں نے ان کا ساتھ دیا۔ راکیش ٹکیت نے کہا کہ جو لوگ سرکار میں بیٹھے ہیں وہ دنگا کراتے ہیں، لیکن اب ہماری سمجھ میں آ گیا ہے اس لئے اب ہم دنگا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ توڑنے کا کام کریں گے تو ہم جوڑنے کا کام کریں گے۔ اس موقع پر لاکھوں کسانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ مہینے بعد ہونے والے اترپردیش اور اتراکھنڈ اسمبلی کے الیکشن میں کسان گھر گھر جا کر اب بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کریں گے۔ بی جے پی کی مخالفت کے کسانوں کے فیصلے نے اتراکھنڈ اور اترپردیش میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بی جے پی کے خوابوں پر فی الحال پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔

 کسانوں نے سرکار کو یہ بھی دکھا دیا کہ وہ پوری طرح سے امن پسند اور ڈسپلنڈ لوگ ہیں۔ لاکھوں کی بھیڑ کے باوجود کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ عوامی تعاؤن کا یہ عالم کہ اتنی بڑی بھیڑ کے باوجود کسی کو پینے کے پانی تک کی قلت پیش نہیں آئی۔ مظفر نگر شہر کے عوام کے ساتھ ضلع کے تمام بڑے قصبات اور گا ؤں کے لوگ کھانے کا سامان اور پینے کے پانی کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر موجود رہے۔جی آئی سی گراؤنڈ تو کھچا کھچ بھرا ہی تھا شہر کی ایک بھی سڑک ایسی نہیں تھی جس پر آسانی کے ساتھ نکلا جاسکتا۔ خود راکیش ٹکیت جب منچ کی طرف آرہے تھے تو انہیں گھنٹوں جام سے جوجھنا پڑا۔ شہر کے چاروں طرف بیس بیس کلومیٹر تک ٹریکٹر ٹرالیاں اور گاڑیاں ٹریفک میں پھنسی نظر آئیں۔ اتنی بڑی بھیڑ کے باوجود اگر سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے تو اس سرکار کاجانا ہی طئے ہے۔

سرکار میں بیٹھے لوگ، ان کے ترجمان اور غلام ٹی وی چینل جو بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ کسانوں کی یہ تحریک مغربی اترپردیش کے مٹھی بھر لوگوں کی ہے۔ مہا پنچائت میں امڈی بھیڑ دیکھ کر ان لوگوں کی سمجھ میں آجانا چاہئے کہ یہ چند لوگوں کی بھیڑ نہیں تھی، بلکہ لاکھوں کسانوں کی پنچائت تھی جس میں ملک کی کئی ریاستوں کے کسان شامل تھے جو اپنی اپنی زبان میں اپنی بات رکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کی باتوں کا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی ہورہا تھا۔ملک بھر سے آئے کسانوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ستائیس ستمبر کو ملک گیر پیمانے پر’بند‘ کیاجائے گا۔ کسانوں نے دعویٰ کیا کہ پانچ ستمبر کو مظفر نگر میں لاکھوں کسانوں کی پنچائت جتنی پرامن رہی ستائیس ستمبر کو ’بھارت بند‘ بھی اتنا ہی پر امن رہے گا۔
مظفر نگر کسان پنچائت سے مودی حکومت اتنی بے چین ہوگئی کہ اگلے ہی دن گیہوں اور جو سمیت کئی پیداواروں کی سرکاری خرید کی شرحوں میں اضافہ کردیا۔ حد یہ کہ ربیع کی فصل کا ایم ایس پی ابھی سے طئے کردیا گیا۔ عوام میں کسان پنچائت کا اثر کم کرنےکی غرض سے آر ایس ایس کی کسان ونگ یعنی بھارتیہ کسان سنگھ کو بھی میدان میں اتار دیا گیا۔ آٹھ ستمبر کو بھارتیہ کسان سنگھ نے دہلی کے جنتر منتر پر دھرنا دیا۔ کسان سنگھ نے بھی مطالبہ کیا کہ ایم ایس پی کو قانونی درجہ دیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مودی حکومت بھارتیہ کسان سنگھ کے مطالبے کے بہانے ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے سمیت کسانوں کے کچھ مطالبات تسلیم کرلے۔

راکیش ٹکیت نے کہا کہ سرکار ہٹ دھرمی پر اتری ہے۔ جنوری کے مہینے سے اس نے کسانوں سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ کسان پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے اس تحریک کو ملک گیر کرنے کے ساتھ کہا کہ یہ تحریک نہیں ملک بچانے کا مشن ہے۔ ملک بچے گا تبھی آئین بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار مستقل ملک کے اثاثے کو بیچنے کا کام کررہی ہے اور یہ تینوں کسانی قوانین بھی اس کی ملک بیچنے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ مہا پنچائت میں آئی زبردست بھیڑ دیکھ کر جوش سے بھرے کسان لیڈران نے کہا کہ اگر مودی سرکار نے ان کے مطالبات نہیں مانے تو کسان ۲۰۲۴ تک بھی تحریک چلانے کو تیار ہیں ساتھ ہی کہا کہ کسان مغربی بنگال کی طرز پر یوپی میں بھی بی جے پی کے خلاف پرچار کریں گے۔ راکیش ٹکیت نے بہت صاف الفاظ میں کہا کہ یا تو سرکار سے تینوں کسانی قوانین کو وہ واپس کرائیں گے یا پھر غازی پور بارڈر پر ان کی قبر بنے گی۔وہ لڑائی کو انجام تک پہونچائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
 
اس تحریک میں دوسری ریاستوں کے کسانوں نے بھی شرکت کرکے یہ اشارہ دے دیا کہ یہ پورے ملک کے کسانوں کی تحریک ہے کرناٹک کے کسان لیڈر انوسوئیا مانجھی نے کنڑ زبان میں تقریر کرکے بی جے پی سرکار پر نشانہ سادھا۔نجنڈا سوامی نے اس کا ترجمہ کیا جبکہ تامل ناڈو سے آئے کسانوں نے تامل اور انگریزی میں تقریر کی۔ آندھرا پردیش سے خاتون کسان تنظیم کی صدر چیترو، ہیم لتا آئیں تو کرناٹک سے خاتون کسان رنجنا سوامی، بندو امنی،اماں سوئی نلنی وغیرہ تحریک میں شریک ہوئیں۔ اس کے علاوہ ہریانہ، پنجاب، اتراکھنڈ اور اترپردیش کے تو بڑی تعداد میں کسان موجود ہی تھے۔ سماجی کارکن میدھا پاٹیکر نے کہا کہ کسان دنگا کرنے نہیں پنگا لینے آئے ہیں۔ یہ کسان اور مزدور ہی ہیں جو ہندوستان بناتے ہیں کسانوں کی لڑائی میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ بی جے پی کو سبق سکھائیں گے۔

کسانوں کی اتنی بڑی پنچائت پر وزیراعظم نریندر مودی تو خاموش رہے مگر بی جے پی کسان مورچہ کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ راج کمار چاہر نے اس مہا پنچائت کو انتخابی سبھا قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف سیاست ہے اس کا کسانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مگر وہ یہ نہیں بتا پائے کہ کسان مہا پنچائت میں منچ پر سیاسی پارٹیوں کے لیڈر تھے یا کسان تھے۔جبکہ کسان پنچائت سے پہلےبی جے پی کے لوک سبھا ممبر ورون گاندھی نے ٹوئیٹ کرکے اپنی سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ کسانوں کا درد سمجھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں میں بھی ہمارا ہی خون ہے۔ ان کے ساتھ قابل احترام طریقہ سے بات کرنا چاہئے۔ مودی بھلے ہی کسانوں کے معاملات پر خاموش ہیں مگر پریشانی اور بے چینی ان کے چہرے سے صاف نظر آتی ہے۔اس کسان مہا پنچائت سے نریندر مودی سے زیادہ پریشان اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اور انہیں اپنا اقتدار ہاتھ سے جاتا نظر آرہا ہے۔
لیڈ اسٹوری (حسام صدیقی) ایڈیٹر
جدید مرکز، لکھنؤ

مؤرخہ ۱۲ تا ۱۸ ستمبر،۲۰۲۱

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر