Latest News

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی سات کتابوں کا اجرا، مولانا نسیم اختر کی کتابیں نصف صدی پر مشتمل ان کی قلمی خدمات کا آئینہ: مولانا سیداحمد خضر شاہ مسعودی

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی سات کتابوں کا اجرا، مولانا نسیم اختر کی کتابیں نصف صدی پر مشتمل ان کی قلمی خدمات کا آئینہ: مولانا سیداحمد خضر شاہ مسعودی

دیوبند،یکم/ اکتوبر (رضوان سلمانی) گزشتہ شب محمود ہال میں مشہور ادیب و شہ سوارِ قلم مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی سات نئی کتابوں کا اجرا مؤقر علماء ودانشوران کے ہاتھوں عمل میں آیا، جن کتابوں کا اجراء عمل میں آیا ان میں سیرتِ آقائے نامدار ﷺ واقعات کے آئنے میں، امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ: زندگی کے چند روشن اوراق، رئیس القلم مولانا سید ازہر شاہ قیصر: زندگی کے چند روشن اوراق، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری: زندگی کے چند روشن اوراق، علمائے دیوبند کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، کیا ہوئے یہ لوگ، پروگرام کی صدارت دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے کی۔ 

اجلاس کا آغاز قار ی غیور کی تلاوت سے ہوا، جب کہ نعت پاک مولانا عبدالمالک مغیثی اور حافظ شکیل نے پیش کی۔مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کی یہ تقریب اردو ادب کے لیے ایک بڑا دن ہے۔ گیسوئے اردو کو سنوارنے کے لیے اخیر کے پچاس برسوں میں جو چند بڑے مشاطہ اٹھے، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ان میں سے ایک ہیں۔ زبان و قلم پر ان کی جیسی گرفت ہے، موجودہ عہد میں اس کی نظیر کم ہی نظر آتی ہے۔ وہ پچھلے پچاس برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور دامنِ ادب کو فقید المثال جواہر و لآلی سے بھرتے جا رہے ہیں۔ خاکہ نگاری پر وہ اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن دوسرے موضوعات پر بھی قلم برداشتہ لکھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ مضمون لکھنا مشکل تو ہے ہی، اس سے زیادہ مشکل سہل نگاری ہے۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے پاس کلاسیکی زبان کے ساتھ ندرتِ افکار اور جدتِ اسلوب بھی ہے۔ میں ان کو مسلسل پڑھ رہا ہوں، ان کی تحریروں میں جو رچاؤ اور شیرینی ہے، ان کے معاصرین میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آج ان کی سات نئی کتابیں سامنے آئیں ان پر میں مولانا موصوف کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اردو کا یہ خضرِ راہ اسی طرح جادہ پیما رہے۔ 

معروف عالم دین اور ماہنامہ ترجمان کے مدیر اعلیٰ مولانا ندیم الواجدی نے کہا کہ امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے علمی کائنات ناواقف نہیں ہے۔ پوری علمی دنیا ان کی خوشہ چینی پر فخر محسوس کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے بعد دو فرزند یادگار چھوڑے، جو علم و ادب کے آفاق میں تازندگی چھائے رہے۔ دونوں بھائیوں کے سفرِ آخرت پر روانگی کے بعد ان کی اولاد نے اپنے باپ دادا کی وراثت کو سنبھالا اور مشتاقانِ علم و ادب کو خوب سیراب کر رہے ہیں، ان میں سے ایک مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی کشمیری ہیں اور دوسرے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر۔ آج مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی سات نئی کتابیں منظرِ عام پر آئیں، جن کا دیدار آپ نے بھی کیا ہے۔ میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر سے کم و بیش 50 سال سے واقف ہوں، ان سے میرے مراسم بڑے گہرے ہیں۔ جہاں تک ان کی قلمی کاوشوں کی بات ہے تو اس کا شاید ہی کوئی منکر ہوگا کہ وہ اس وقت اردو دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑنے کے حوالے سے ایک شناخت رکھتے ہیں۔ بلاشبہ ان کی قلمی خدمات اہلِ اردو کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

رکن رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ قاری ابوالحسن اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ لکھنا اور مسلسل لکھنا یہ اللہ کا فِضل ہے، پھر لکھنے میں زبان وبیان کی شوکت، فکر وخیال کی رفعت، اسلوب ادا کی جاذبیت کا فن بھی پوری توانائی کے ساتھ شامل ہو یہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ہمارے اس دور میں اس فن کا بڑا حصہ مولانانسیم اختر شاہ قیصر کو ملا ہے۔انہوں نے دیوبند کے قلمی سفر کو دلپذیری، دلکشی اور رعنائی کا لباس پہنایا ہے، ان کی ۸۴ سالہ کامیاب قلمی زندگی اور کل ۵۲ کتابیں منظر عام پر آنے کو میں دیوبند کے لئے باعث افتخار سمجھتا ہوں۔ 

جامعہ طبیہ دیوبند کے سکریٹری ڈاکٹر انور سعیدنے اپنے خطاب میں کہاکہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے بڑوں کا بھی کاغذ اور قلم سے رشتہ مضبوط رہا ہے۔ انہوں نے اپنی خاندانی روایتوں کو زندہ کیا اور دیوبند کی تحریری، ادبی دنیا میں خوبصورتی کے ساتھ اپنی جگہ بنائی ہے، انہیں آج اردو کے مختلف حلقوں میں احترام اور عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کی 7کتابوں کا اجراء ان کی لگن، جذبے،مسلسل وابستگی اوراعلیٰ قلمی صلاحیتوں، کمالات کا مظہر ہیں۔ 
دارالعلوم وقف کے استاذ حدیث مولانا مفتی عارف قاسمی نے کہا کہ مولانا نسیم شاہ نے اپنے باپ دادا کے علم کو خوب صورتی سے آگے بڑھایا، بالخصوص زبان و قلم سے وہ کارنامے انجام دیے اور دیتے جا رہے ہیں کہ وہ اپنے میدان کا خوب صورت استعارہ بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیوبند دارالعلوم کے قیام سے پہلے بھی اور دارالعلوم کے قیام کے بعد تو بھرپور انداز میں ادب وصحافت اور تصنیف وتالیف کے میدان میں امتیازی شان کامالک ہے، ہر زمانہ میں اس کے لکھنے والے نامور اور مشہور رہے ہیں اور آج یہ شہرت اور ناموری مولانا نسیم اختر شاہ قیصر تک پہنچ گئی ہے، خوشی ہے کہ وہ حق وراثت اور حق جانشینی خوب ادا کررہے ہیں۔ 
جامعہ امام محمد انور شاہ کے استاذ حدیث اورنائب ناظم تعلیمات مولانا فضیل ناصری نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی قلمی زندگی کا خوبصورت احاطہ کیا۔ مولانا مفتی صادق مظاہری خطیب خیرالمساجد نے کہا کہ آج میں اس تاریخی تقریب میں شرکت کو اپنے لیے سعادت سمجھ رہا ہوں۔ مولانا نسیم اختر شاہ کے بارے میں کچھ کہنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے۔ ان کی تحریریں خود ہی بولتی ہیں۔ ان کی تعبیرات اور ترکیبیں ایک آرٹ بن چکی ہیں۔ میں نے ان سے خوب استفادہ کیا۔ بلا مبالغہ عرض ہے کہ اس وقت وہ ادبی دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ شخصیات پر ان کے مضامین پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ بار بار پڑھیں۔ دوسرے موضوعات پر بھی انہوں نے اپنے باغ و بہار قلم کا جادو جگایا ہے۔ مولانا فتح محمد ندوی کھجناوری نے کہا کہ مولانا نسیم شاہ کی تحریریں جس قدر شستہ شگفتہ اور نستعلیقیت سے معمور ہیں، اسی قدر بے تکلف اور خوش گوار تعلقات رکھنے کے عادی ہیں۔ ان کی کتابیں میرے عہد کے لوگ، میرے عہد کا دارالعلوم اور خوشبو جیسے لوگ ان کتابوں میں سے ہیں جن پر اردو بجا طور پر ناز کر سکتی ہے۔ 
مولانا عبدالمالک مغیثی مہتمم مدرسہ رحمت گھگھرولی سہارن پور نے کہا کہ مولانا نسیم شاہ کی تحریروں پر تمام مقررین نے بہترین تبصرے کیے ہیں۔ میرا اپنا اپنا تاثر یہ ہے کہ اردو کے اس دور میں جب کہ اردو کشی عام ہے اور انگریزی ہندی کو اس زبان میں زبردستی شامل کیا جا رہا ہے، مولانا نسیم شاہ ایک چٹان کی طرح نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اردو کو اپنی اصل صورت میں باقی رکھنے اور اسے پروان چڑھانے کی جیسی کوشش کی ہے، اس پر اردو کا ہر مخلص قاری خراجِ تحسین پر مجبور ہے۔انجینئر عزیر انور شاہ اور حافظ خبیب انور شاہ نے کہا کہ فضلائے دارالعلوم دیوبند یا قاسمی برادری کے جو افراد قلم کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں اور علمی وادبی حلقوں میں جن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں بلاتأمل والد محترم مولانا نسیم اختر شاہ قیصر شریک ہیں اور آج وہ صف اول میں کھڑے ہوئے ہیں، ان کے طویل قلمی سفر کی روداد چند منٹوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
 مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ احقر کی حقیر سی دعوت پر آپ کی تشریف آوری میرے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ مقررین نے میرے سلسلے میں جو کچھ بھی کہا ہے، ان کا حسنِ ظن ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسنِ ظن پر اتار دے۔ 

اس موقع پر کثیر تعداد میں سامعین موجود رہے۔اس موقع پر مسلم فنڈ ٹرسٹ کے منیجر سہیل صدیقی، مولانا صغیر احمد، مولانا ابوطلحہ، مولانا مفتی عبیدانور شاہ، مولانا بدرالاسلام، مولانا قاری سید ارشاد، مولانا عبدالسلام ممبئی، مولانا قاری واصف، مولانا اظہار قاسمی، مولانا جمشید عادل، مولانا محمد سجاد، عبداللہ راہی، شمیم کرتپوری، عبدالرحمن سیف، ڈاکٹر کاشف اختر، ڈاکٹر ایس اے عزیز، مولانا عبدالقادر، ارشد صدیقی، تنویر اجمل، ڈاکٹر نعمان قاسمی، منور سلیم، زکی انجم، حافظ یعقوب، مولانا عبدالمالک، حافظ اسجد، اسماعیل قریشی سمیت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ 

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر