Latest News

یونانی کالجوں کی بقا کے لیے بی یوایم ایس کورس میں داخلوں کےضابطوں میں تبدیلی ضروری ہے:آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار میں ڈاکٹر انور سعید کا اظہار خیال۔

یونانی کالجوں کی بقا کے لیے بی یوایم ایس کورس میں داخلوں کےضابطوں میں تبدیلی ضروری ہے:آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار میں ڈاکٹر انور سعید کا اظہار خیال۔
دیوبند/سنگرور25 اکتوبر (رضوان سلمانی)
آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے زیر اہتمام بھوانی گڑھ سنگرور( پنجاب)میں واقع رہبر آیورویدک اینڈ یونانی طبی میڈیکل کالج ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر میں ”آزادی کا امرت مہااتسو“ کے موقع پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر کے طبی یونانی سے تعلق رکھنے والے اطباء نے شرکت کی اور طبی یونانی کے فروغ کے سلسلہ میں تبادلہ خیال کیا۔ 
اس موقع پر سی۔سی۔آئی۔ایم۔ کے سابق رکن اور جامعہ طبیہ دیوبند کے سیکریٹری ڈاکٹر انور سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر یونانی کالجو ں کے وجود کو باقی رکھنا ہے تو بی، یو، ایم، ایس کے داخلوں کے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ امتحان کے ذریعہ آیوش طریقہ علاج کے مختلف کورس میں داخلہ کاؤنسلنگ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اس داخلہ کے طریقہ میں جب یونانی کے طلباء کاؤنسلنگ کے لئے جاتے ہیں تو ان سے اردو کا سرٹیفیکٹ مانگا جاتا ہے جبکہ دیگر طریقہائے علاج جیسے آیوروید(بی۔اے۔ایم۔ایس۔) ہومیوپیتھ (بی۔ایچ۔ایم۔ایس) وغیرہ کے داخلوں کے لئے کسی اور زبان مثلاً ہندی یا سنسکرت وغیرہ کا سرٹیفیکٹ طلب نہیں کیا جاتا ہے۔ اصولاً تمام کورسز میں ایک ہی اصول و ضوابط ہونے چاہئیں۔ لہٰذا کاؤنسلنگ میں یونانی طب میں داخلہ چاہنے والے طلباء سے اردو کا سرٹیفیکٹ طلب کیا جانا بند کیا جائے۔ کاؤنسلنگ کے وقت جب اردو کا سرٹیفیکٹ داخلہ چاہنے والا طالب علم پیش نہیں کر پاتا تو وہ یونانی کے علاوہ دوسرے کورس مثلاً بی۔اے۔ایم۔ایس۔ یا بی۔ایچ۔ایم۔ایس۔ میں لاک کر دیتے ہیں۔گذشتہ دو سال سے آیوروید میں جو یونانی کے بچے ٹرانسفر ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس اردو سرٹیفیکٹ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ طب یونانی کے بہت سے مضامین کا ذریعہ ئ تعلیم اور ذریعہ امتحان اردو زبان ہی ہے۔ تو اس کا تدارک این۔سی۔آئی۔ایس۔ایم۔ اس طریقے سے کرے اپنے ماتحت آنے والے تمام طبیہ کالجوں کے لئے یہ لازمی کر دے کہ وہ بی۔یو۔ایم۔ایس۔ میں داخلہ لینے والے طلباء کو پہلے سال میں اردو زبان کی تعلیم لازمی طور پر دی جائے۔ بے شک اس کا امتحان منعقد نہ کیا جائے لیکن اتنی تعلیم طالب علم کو فراہم کر دی جائے جو یونانی مضامین پڑھنے میں اس کے لئے معاون ثابت ہو۔ اس طریقے سے نہ تو طب یونانی کا کوئی حرج ہوگا اور نہ ہی اردو زبان کا کوئی نقصان۔ آج کے زمانے میں 10+2 کا جو طریقہ تعلیم ہے اس میں اکثر کالجوں میں اردو تدریس کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا داخلہ کے وقت کاؤنسلنگ میں اردو کی شرط ان طلباء کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے جو ہندی یا انگلیش میڈیم سے تعلیم حاصل کرکے بی۔یو۔ایم۔ایس۔ کے کورس میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس لئے نیشنل کاؤنسل آف انڈین سسٹم میڈیسن کے ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ اس دشواری کا تدارک ترجیحی طور پر کیا جائے اور داخلہ کے وقت داخلہ کو اردو سے مشروط کرنے کی جگہ طبیہ کالجوں میں پہلے سال میں اردو کی تعلیم کا انتظام لازمی کیا جائے۔

 انہوں نے کہا کہ فی الوقت جو صورت حال ہے اگر یہ باقی رہی تو پھر طبیہ کالجوں کو داخلہ ملنے ناممکن ہو جائیں گے اس لئے کہ عملی طور پر 10+2 میں اردو کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد نہ کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سالوں میں طبیہ کالجوں میں داخلہ مکمل نہیں ہو پائے اور جتنی نشستیں داخلہ کے لئے ہوتی ہیں ان کی آدھی بھی پوری نہیں ہو پاتی ہیں۔ یہ حالت بہت سنگین ہے اور اندیشہ ہے کہ ان حالات میں طب یونانی کی تعلیم شاید ترک کرنا پڑے اور اس کی جگہ کالج دوسرے کورسز کی طرف رجوع کریں۔ ڈاکٹر انورسعید نے آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے ذمہ داران سے درخواست کی کہ اس طرح کی ایک تجویز پاس کرکے حکومت کو بھیجیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ 

ڈاکٹر انور سعید نے پروگرام کے کنوینر اور کالج کے چیئرمین ڈاکٹر شفیق خان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ایک ادارہ کو قائم کرنے میں کئی نسل گزر جاتی ہیں لیکن شفیق خان نے اس مثال کو بھی غلط ثابت کیا مختصر سے وقفے میں اس ادارے نے بڑی ترقی کی۔ اس سال یہاں کا رزلٹ بھی بہت اچھا رہا۔ اس لئے یہاں کا تدریسی اسٹاف بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی صدر پروفیسر مشتاق احمد نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر انور سعید کے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یونانی طبی کانگریس ہمیشہ طب یونانی کے فروغ اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے کوشاں رہی ہے۔ نیشنل کاؤنسل آف انڈین سسٹم آف میڈیسن میں BUS (Board of Unani System of medicine) کی رکنیت کی نشستیں اب تک خالی ہیں ان پر ممبران کی نامزدگی نہیں کی گئی ہے اس سلسلے میں بھی یونانی طبی کانگریس کی ایک کمیٹی نے این۔سی۔آئی۔ایس۔ایم۔ کے ذمہ داران سے ملاقات کر ان کے سامنے یہ پرزور مانگ رکھی ہے کہ جلد از جلد BUS کے لئے ممبروں کی نامزدگی کی جائے۔ انہوں یہ بھی بتایا کہ حالانکہ سدھا،سووارگپا سے زیادہ ملک بھر میں یونانی طبیہ کالج ہیں اور اس طریقہ علاج کی مقبولیت بھی ان دو طریقوں سے بہت زیادہ ہے اس کے باوجود بھی طب یونانی کو ان کم مقبول طریقہ علاج کے ماتحت کر دیا گیا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ 

اس سلسلہ میں یونانی طبی کانگریس نے پارلیمانی بورڈ اور وزیر اعظم ہند عالی جناب نریندر مودی کو بھی میمورنڈم ارسال کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار سنجیو گویل نے کہا کہ طب یونانی کا مستقبل روشن ہے کوئی بھی طب ہو اس کو آگے بڑھانا چاہئے انہوں نے ڈاکٹر انور سعید کی باتوں کی حمایت کی۔ آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی جنرل سیکریٹری سید احمد خان نے کہا کہ کسی بھی تنظیم کا وجود اتحاد سے ہوتا ہے اور ہماری یہ تنظیم طب یونانی کے فروغ کے لئے برابر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونانی اسکالر ٹیچنگ فیکلٹی اور اسٹوڈنٹ کو اپنے آپ کو موٹیفائی کرنا ہوگا اور جدید تحقیقات کو سامنے رکھ کر طب یونانی کے لئے کام کرنا ہوگا تاکہ آسانی سے لوگوں تک یونانی علاج کی رسائی ہو سکے۔

 چنئی سے تشریف لائے ماہر ادویہ ڈاکٹر عبیداللہ بیگ نے علاج و معالجہ کی افادیت بیان کرتے ہوئے یونانی کے فروغ کے لئے حاملین طب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ احساس کمتری سے نکل کر اپنے اندر اعتماد پیدا کریں۔ ڈاکٹر عبیداللہ بیگ نے پریکٹیکل کے ذریعہ طلباء و اساتذہ کی رہنمائی کرتے ہوئے ثابت کیا کہ کس طرح یونانی پیتھی سے بھی فوری طور پر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور ادویہ مفردہ سے بھی کامیاب علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عارف، پروفیسر ڈاکٹر اختر صدیقی، ڈاکٹر الیاس مظہر، ڈاکٹر قافلہ، ڈاکٹر منہاج، ڈاکٹر سراج جعفری، ڈاکٹر اسماء، ڈاکٹر عارف بجنوری وغیرہ موجود رہے آخر میں ڈاکٹر شفیق احمد خان نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

Posted By: Sameer Chaudhary

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر