Latest News

مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو جرم قرار دینے، یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے احتراز، مذہبی شر پسندی کو روکنے کے مطالبے اورتبدیلی مذہب کے نام پر مبلغین اسلام کے خلاف کارروائی کی مذمت کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا اہم اجلاس اختتام پذیر۔

مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو جرم قرار دینے، یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے احتراز، مذہبی شر پسندی کو روکنے کے مطالبے اورتبدیلی مذہب کے نام پر مبلغین اسلام کے خلاف کارروائی کی مذمت کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا اہم اجلاس اختتام پذیر۔
کانپور: دارالتعلیم والصنعہ جاج مئو کانپور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ۲۷واں دوروزہ اجلاس اتوار کو اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں کئی اہم تجاویز منظور کیے گئے جس میں خصوصی طور پر تبدیلی مذہب کی آڑ میں مبلغین اسلام کی بے جا گرفتاریاں، گیان واپی مسجد اور متھرا عید گاہ میں شرانگیزی، ہندو مہا سبھا پر کارروائی کا مطالبہ ، مذہبی شخصیات کی توہین کے خلاف قانون سازی اور یکساں کوڈ کے نفاذ سے احتراز کا مطالبہ کیاگیا ۔مسلم اوقاف کے تحفظ پر زور دیاگیا اور بعض عدالتوں کی اراضی کو بیچنے کی اجازت دینے کو شریعت اسلامی میں مداخلت قرار دیاگیا اور مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی کہ وہ شادی بیاہ میں بے جا رسم ورواج اور اصراف نمود نمائش اور جہیز جیسی لعنت سے احتراز کریں، اپنی ذاتی زندگی میں شرعی احکامات پر عمل کریں۔ اجلاس مولانا رابع حسنی ندوی کو بااتفاق رائے مسلسل چھٹی مرتبہ بورڈ کا صدر منتخب کیاگیا وہیں خالی عہدوں پر نامزدگیاں اور سابقہ عہدوں کی توثیق بھی کی گئی۔ 

اطلاعات کے مطابق امیر شریعت مولانامحمدولی رحمانی(سابق جنرل سکریٹری بورڈ)کے انتقال سے خالی جنرل سکریٹری کے عہدہ پرمولاناخالدسیف اللہ رحمانی کومنتخب کیاگیا۔نیزمولاناسالم قاسمی(سابق نائب صدربورڈ)کی خالی نشست پر مولاناارشدمدنی صدرجمعیۃ علمائے ہند کو اور مولاناکلب صادق(سابق نائب صدربورڈ)کی خالی جگہ پرپروفیسرسیدعلی محمدنقوی سابق پروفیسرعلی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کو نائب صدر بنایاگیا۔ان کے علاوہ امیرشریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈمولانااحمدولی فیصل رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی بورڈ کے رکن اور رکن مجلس عاملہ بنائے گئے۔نیزمولاناصغیراحمدرشادی امیرشریعت کرناٹک، مولانا سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند، مولاناسیدمحمدعلی تقوی(جونائب صدربنائے گئے) ایڈووکیٹ ایم آرشمشاد بھی عاملہ کے رکن منتخب کیے گئے ہیں۔ یہارسے خالی متعددنشستوں پرقاضی انظارقاسمی قاضی شریعت امارت شرعیہ، جاوید اقبال، انوار عالم بہادر گنج، مولاناحفظ الرحمن اور مولانا عبد الواحد کو بھی رکن میقاتی منتخب کیا گیا۔ علاوہ ازیں مولانا محموددریاآبادی میقاتی سے رکن اساسی بنائے گئے ہیں۔

بورڈ نے ۱۱ تجاویز منظور کی جس میں سب سے پہلی تجویز میں مذہبی رہنمائوں کی توہین خصوصاً حضور اقدس ﷺ کی اہانت پر افسوس کا اظہار کیاگیا ، تجویز کے مطابق’’حالیہ عرصہ میں بعض شرپسندوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان اقدس میں کھلے عام گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، او رحکومت نے اس کو روکنے کی موثر کوشش نہیں کی، فرقہ پرست عناصر کی طرف سے یہ دل آزار رویہ قطعاً ناقابل قبول ہے، یہ ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش اور حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے، حضور ﷺ پوری دنیا کے مسلمانوں کے رہبرو رہنما اور رحمت اللعالمین ہیں، مسلمان انہیں ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ۔ ان کی شان میں گستاخی سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوںگے اور دنیا میں ملک کی تصویر داغدار ہوگی، اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مقدس مذہبی شخصیتوں کی شان میں گستاخی کرنے والے حضرات کو قرار واقعی سزا دی جائے او رحکومت اس کےلیے موثر قانون سازی کرے‘‘۔ بورڈ نے اپنی تجویز میں کہاکہ ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا دستو ربنایاگیا ہے اورہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کا حق دیاگیا ہے، ایسے بڑے ملک میں کثیر مذہبی سماج کےلیے یکساں سول کوڈ نہ مناسب ہے او رنہ مفید، حکومت ملک پر براہ راست یا بالواسطہ اور کلی یاجزوی کامن سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے، یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔ پانچویں تجویز میں خواتین پر ہورہے مظالم کا ذکر کیاگیا اور حکومت سے خواتین کے تحفظ کےلیے موثر قوانین بنائے جانے کا مطالبہ کیاگیا۔

چھٹی تجویز میں حالیہ تری پورہ فساد اور مساجد کی بے حرمتی پر افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ ماب لنچنگ وغیرہ کے خلاف حکومت سے اسے موثر طریقہ سے روکنے کی اپیل کی گئی۔ ساتویں تجویز میں مسلمانوں سے اپنی زندگی میں شریعت کو نافذ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ میں بے جا رسم ورواج اور جہیز کی لعنت سے بچنے کو کہاگیا اور اپنے باہمی نزاع کو ثالث کے ذڑیعہ حل کرانے یا پھر دارالقضا سے رجوع کرنے کو کہاگیا اسی تجویز میں بین مذہبی شادی سے مکمل طور پر اجنتاب کرنے کو بھی کہاگیا۔آٹھویں تجویز میں بورڈ نے کہاکہ ’’بورڈ مسلمانوں او ر غیرمسلم بھائیوں سے بالخصوص علماء و وکلاء سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی قوانین کو پڑھیں، اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، غلط فہمیوں سے بچیں اور دوسروں کی بھی غلط فہمیاں دور کریں، کیوں کہ اسلام کا قانون معاشرت پوری طرح انسانی ضرورت و مصلحت سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں خاندانی زندگی سے متعلق جو قوانین مرتب کئے گئے ہیں، اس میں مسلم پرسنل لا سے بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے‘‘۔ نویں تجویز میں بورڈ نے کہاکہ ’’دستور ہند میں ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق دیاگیا ہے اس میں مذہب کی تبلیغ بھی شامل ہے، اگر کوئی شخص جبرودبائو اور مالی تحریص کے بغیر اپنے مذہب کی خوبیوں کو بتاکر تبلیغ کرتا ہے تو اس کی اجازت ہے،حالیہ دنوں میں بعض لوگوں نے اپنے مرضی سے اسلام قبول کرلیا، انہو ںنے پولس یا عدالت میں یہ دعویٰ دائر نہیں کیا کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایاگیا لیکن پھر بھی تبلیغ مذہب کا کام کرنے والوں پر جھوٹے مقدمے درج کیے گئے جبکہ دوسری طرف بعض فرقہ پرست کھلے عام تبدیلی مذہب کا نعرہ لگارہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں، یہ واضح طور پر دستور کی خلاف ورزی اور ان لوگوں کوبنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے ، اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی گروہ کے بنیادی حقوق میں مداخلت سے باز رہے، اور تمام طبقوں کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ طرز عمل اختیار کرے۔ جو لوگ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار ہیں انہیں فی الفور رہا کیاجائے اور ان پر سے مقدمات واپس لیے جائیں۔ بورڈ نے اپنی ۱۰ ویں تجویز میں کہاکہ ’’گیا ن واپی مسجد اور شاہی عید گاہ متھرا کے سلسلے میں فرقہ پرست عناصر خاص طور پر ہندو مہاسبھا کی جانب سے جو شرانگیزی کی جارہی ہے اورجس طرح ماحول کو خراب کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہورہی ہے آج کا یہ اجلاس اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اسے ملک کی تعمیروترقی کےلیے نقصان دہ قرار دیتا ہے، نیز حکومت سے کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ فرقہ پرست عناصر بالخصوص ہندو مہاسبھا کی شرانگیز کارروائیوں پر فوراً روک لگائے، اور مذہبی مقدس مقامات کے تحفظ اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بقا کو یقینی بنائے‘‘۔ بورڈ نے اپنی آخری تجویز میں شرپسندوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت وبغض و عناد پر مبنی پروپیگنڈوں، بے جا الزامات اور مسلمانوں کی عظیم تاریخ کو مسخ کرنے والے فرقہ پرستوں ، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز پوسٹ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے سوشل میڈیا پر ہورہی فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی کی روک تھام کےلیے شرپسند عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر