Latest News

یوپی بورڈ کے اسکولوں میں مسلسل کم ہورہی طلبہ وطالبات کی تعداد،بورڈ کی جانب سے غیر ضروری پابندیاں ہے بڑی وجہ؟

یوپی بورڈ کے اسکولوں میں مسلسل کم ہورہی طلبہ وطالبات کی تعداد،بورڈ کی جانب سے غیر ضروری پابندیاں ہے بڑی وجہ؟
دیوبند:(فہیم صدیقی)
اترپردیش مادھیمک شکشا پریشد (یوپی بورڈ) میں مسلسل غیر ضروری تبدیلوں اور بلا وجہ کی پابندیوں اور سختیوں کی وجہ سے اب طلبہ وطالبات کی بڑی تعداد بیزار ہوتی جارہی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ تعلیمی رجحان میں قابل ذکر اضافہ ہونے کے باوجود یوپی بورڈ میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے، تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ تعداد 70 لاکھ سے کم ہوکر تعلیمی سال 2021-22ءمیں محض 51 لاکھ رہ گئی ہے، 20 نومبر تک ہونے کے والے درجہ 9 اور درجہ 11 کے رجسٹریشن اور اسکول و انٹر میڈیٹ کے بورڈ امتحانات میں شرکت کرنے اور آن لائن متعلقہ بورڈ کو اپنے فارم و تفصیلات بھیجنے والے طلبہ و طالبات کی مجموعی تعداد 51 لاکھ 27 ہزار 743 تک پہنچ چکی ہے، یوپی بورڈ سے طلبہ وطالبات کی بیزاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ بورڈ امتحانات 2021ءمیں شریک طلبہ وطالبات کی تعداد 56 لاکھ سے زائد تھی جو اس سال کم ہوکر 51 لاکھ تک محدود ہوگئی ہے، جو نہایت تشویشناک اور سنجیدگی سے غور فکر کرنے والی بات ہے ،قابل ذکر ہے کہ جہاں دوسرے اہم تعلیمی بورڈ اپنے منسلک تعلیمی اداروں کو سہولیات دینے کے ساتھ طلبہ وطالبات کے لئے آسانیاں اور مستقبل کے لئے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کرارہے ہیں وہیں یوپی بورڈ اس سلسلہ میں بالکل صفر ہے۔

 یوپی بورڈ کے تحت تمام سرکاری ہائی اسکولوں و انٹر کالجوں کی تعلیمی خدمات بد سے بدتر ہیں،تعلیم کا پورا معیار اور بہتر نتائج یوپی بورڈ سے منسلک پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر منحصر ہے لیکن یوپی بورڈ ان تعلیمی اداروں کے تدریسی عملے اور طلبہ وطالبات کی بہتری کے بارے میں کوئی اقدام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں،جس کے نتیجہ میں دیگر تعلیمی بورڈوں کی بہ نسبت یوپی بور ڈ کا تعلیمی معیار اور وقار میں گراوٹ آتی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ بورڈ کو بار بار رجسٹریشن اور آن لائن بورڈ امتحان کے فارم اپلوڈ کرنے کی تاریخوں میں توسیع کرنے کے باوجود طلبہ یا ان کے والدین اس بورڈ کے تحت تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ طلبہ کی تعداد 70 لاکھ سے گھٹ کر 51 لاکھ تک پہنچنا نہایت تشویشناک امر ہے ،جس پر ماہر تعلیم کو سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر