خطرے میں الیکشن کمیشن کی خودمختاری: حسام صدیقی
گزشتہ دنوں ایک نئی بات سامنے آئی کہ وزیراعظم کے دفتر میں چیف الیکشن کمشنر سمیت پورے کمیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات کرنے کے لئے طلب کیا گیا۔ یہ انتخابی اصلاحات وزارت قانون کی اڑنگے بازی کی وجہ سے گزشتہ پچیس سالوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ اسی بہانے پورے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم نریندر مودی کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا کے سامنے پیش ہونے کے لئے کہا گیا۔ خبر ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا اور ان کے دونوں الیکشن کمشنر راجیو کمار اور انوپ پانڈے نے پی ایم او کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشر ا کے ساتھ میٹنگ کی۔ جب اس پر شور مچا تو چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ وہ لوگ پی ایم او میں گئے نہیں تھے بلکہ ڈیجیٹل طریقہ سے آن لائن بات چیت ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۴ میں وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار بننے کے بعد سے جتنے بھی آئینی ادارے ہیں، ایک ایک کرکے تقریباً سبھی کو سرکاری غلامی میں لادیا گیا ہے۔ صرف دو ادارے بچے، دونوں نہ صرف بہت بڑے ہیں بلکہ آئینی اعتبار سے اہم بھی ہیں ان میں ایک ہے سپریم کورٹ اور دوسرا الیکشن کمیشن۔ سپریم کورٹ کو بھی کافی کمزور کیاجاچکا ہے اب الیکشن کمیشن کی باری ہے۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے اسے بھی گزشتہ سات سالوں میں کافی کمزور کیا جاچکا ہے۔ راجستھان کاڈر کے آئی اے ایس سنیل اروڑا جب سے چیف الیکشن کمشنر بنے تھے انہوں نے ہی کمیشن کو سرکار کی غلامی میں لگانے کا کام سب سے زیادہ کیا۔ ویسے تو کئی چیف الیکشن کمشنروں نے ایسا کیا تھا لیکن سنیل اروڑا نے اقتدار میں بیٹھی بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ جس حد تک ہمدردی کا مظاہرہ کیا ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اب کمیشن اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ اگر الیکشن اصلاحات کے لئے الیکشن کمیشن اور وزیراعظم کے دفتر کے درمیان میٹنگ ہونا اتنا ہی ضروری تھا تو وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا کو الیکشن کمیشن کے صدر دفتر ’نرواچن سدن‘ میں جا کر میٹنگ کرنی چاہئے تھی۔ چیف الیکشن کمشنر اور ان کےدونوں الیکشن کمشنروں کو طلب کرنے کا کیا جواز ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کل وزارت قانون کے سکریٹری عدلیہ میںاصلاحات کی بات کرنے کے بہانے چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کے دیگر سینئر ججوں کو اپنے دفتر طلب کرلیں۔
وزیراعظم نریندر مودی جمہوریت کی بات تو بار بار کرتےہیں لیکن ایک ایک کرکے ملک کے تمام جمہوری اور آئینی اداروں کی ساکھ کو ختم کرنے کی کاروائیاں بھی ان کی سرکار میں چل رہی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن ہی مکمل طور پر آزاد نہ رہا تو ملک میں آزادانہ طریقہ سے الیکشن کیسے ہوسکتے ہیں اور جس دن ملک میں آزادانہ الیکشن ہونا بند ہوگئے وہ دن جمہوریت کا آخری دن ہوگا اورتانا شاہی کی شروعات ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر اور ان کے دونوں الیکشن کمشنروں نے وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری کے سامنے جا کر ان کے ساتھ میٹنگ کی یا نہیں کی، اس سوال کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ اب تو اہم اور اصل سوال یہ ہوگیا ہے کہ پورے الیکشن کمیشن کو پرنسپل سکریٹری کے ساتھ میٹنگ کرنے کا خط ہی کیوں لکھا گیا۔ اگر پروٹوکول دیکھا جائے تو ملک میں چیف الیکشن کمشنر نویں نمبر پر آتے ہیں اور وزیراعظم پرنسپل سکریٹری تئیسویں نمبر پر، اتنا جونیئر افسر آئینی طریقہ سے پوری طرح آزاد الیکشن کمیشن کو بلانے کی ہمت کیسے کرسکتا ہے۔ اس کا جواب تو شائد یہی ہے کہ ’مودی ہیں تو ممکن ہے‘۔ یعنی مودی کے دور میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی آزادی ختم کرنے کی منشا نہ ہوتی تو اس مسئلے پر خودمودی کو ہی اپنی طرف سے نوٹس لے کر اپنے پرنسپل سکریٹری کو تنبیہ کرنی چاہئے تھی جو انہوں نے نہیں کی۔
مودی سرکار ہو یا اس سے پہلے کی سرکاریں، ان کی لاپروائی کا عالم یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کا معاملہ گزشتہ پچیس سالوں سے پینڈنگ ہے ان اصلاحات میں آدھار کو اپنی مرضی سے ووٹر لسٹ سے جوڑنا اور ہر سال کم سے کم چار تاریخوں پر ووٹر کی عمر کو پہونچ چکے لوگوں کوووٹر کے طور پراپنا نام لسٹ میں شامل کرانا شامل ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لئے کمیشن بار بار وزارت قانون کو خط بھیجتا رہا لیکن وزارت قانون کوئی کاروائی کرنے کے بجائے نئی نئی قسم کی وضاحتیں ہی مانگتا رہا۔حد یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزارت سے نکالے جاچکے وزیر قانون روی شنکر پرساد اور موجودہ وزیر قانون کرن ریجیجو کو بھی خط لکھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہوئی مبینہ میٹنگ کے بعد مودی سرکار نے آدھار کارڈ کو ووٹر لسٹ سے جوڑنے کا قانون بنا دیا۔ بیس دسمبر کو لوک سبھا میں اور اکیس دسمبر کو راجیہ سبھا میں اس بل کو منظوری بھی مل گئ ی۔ الیکشن کمیشن چاہتا تھا کہ جو ووٹر اپنے آدھار کو اپنی مرضی سے ووٹر لسٹ سے جوڑنا چاہیں اسی کو جوڑا جائے۔ لیکن
سرکار نے آدھار کارڈ کو ووٹر لسٹ سے جوڑنا لازمی بنا دیا۔
اداریہ
جدیدمرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۲۶ دسمبر،۲۰۲۱ تا یکم جنوری۲۰۲۲
0 Comments