نکاح کی عمر متعین کرنے کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے قرار دیا نقصان دہ، اس قسم کے قانون بنانے سے حکومت کو باز رہنے کی نصیحت۔
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولا نا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن نکاح کس عمر میں ہو اس کے لئے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت و تندرستی سے بھی ہے اور سماج میں اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی، اس لئے نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی ہے، اس کو عاقدین اور ان کے سرپرستوں کی صوابدید پر رکھا گیا ہے، اگر کوئی لڑکا یا لڑکی 21 سال سے پہلے نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو اس کو نکاح سے روک دیناظلم اور ایک بالغ شخص کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے۔
اس سے سماج میں اس کی وجہ سے جرائم کو بڑھا وامل سکتا ہے، ۱۸ سال یا ۲۱ سال شادی کی کم سے کم عمر تعین کر دینا اور اس سے پہلے نکاح کو خلاف قانون قرار دینا نہ لڑکیوں کے مفاد میں ہے، نہ سمج کے لئے بہتر ہے؛ بلکہ اس سے اخلاقی قدروں کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے، ویسے بھی کم عمر میں نکاح کرنے کا رجحان آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں کہ مقررہ عمر سے پہلے ہی نکاح کر دینے میں لڑکی کا مفاد ہوتا ہے؛ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے بے فائدہ بلکہ نقصاندہ قانون بنانے سے باز ر ہے ۔
سمیر چودھری۔
DT Network
0 Comments