Latest News

جدید اِبلاغی وسائل کو اپنانے کے ساتھ بنیادی صحافتی قدروں کی پاسداری ضروری، قومی اردو کتاب میلے کے تیسرے دن ’ذرائعِ ابلاغ کے بدلتے وسائل اور اردو صحافت‘ کے موضوع پرمنعقدہ پروگرام میں مقررین کا اظہارِ خیال۔

جدید اِبلاغی وسائل کو اپنانے کے ساتھ بنیادی صحافتی قدروں کی پاسداری ضروری، قومی اردو کتاب میلے کے تیسرے دن ’ذرائعِ ابلاغ کے بدلتے وسائل اور اردو صحافت‘ کے موضوع پرمنعقدہ پروگرام میں مقررین کا اظہارِ خیال۔
مالیگاؤں: بے پناہ تکنالوجیکل ترقیات کے موجودہ دور میں دیگر زبانوں کی صحافت کے ساتھ اردو صحافت بھی بہت سی ترقیات و تغیرات سے گزر رہی ہے،جو یقیناً اس کے لیے مفید بھی ہیں اور ان کی وجہ سے اردو صحافت کا ظاہری معیار اور شکل و صورت پہلے سے کافی بہتر ہوگئی ہے،مگر ایک اہم مسئلہ جس کا اردو ہی نہیں،ہر زبان کی مطبوعہ و الیکٹرانک میڈیا کو سامنا ہے،اس کا تعلق صحافت کے اصولوں سے ہے،ضرورت ہے کہ ہم ظاہری ترقیات کے ساتھ بنیادی صحافتی اصولوں کے بھی پابند رہیں۔ان خیالات کا اظہار مالیگاؤں میں قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام جاری چوبیسویں قومی اردو کتاب میلے کے تیسرے دن ’ذرائعِ ابلاغ کے بدلتے وسائل اور اردو صحافت‘ کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں خصوصی خطاب کے دوران معروف صحافی اور ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید نے کیا۔ اس پروگرام کی صدارت مالیگاؤں کے بزرگ صحافی جناب عبداللطیف جعفری کر رہے تھے۔ شکیل رشید نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جدید ترین وسائل اور تبدیلیوں کو اپنانے کے ساتھ صحافت کے زریں اصول دیانت داری و سچائی کو اپنانے اور اسے سختی سے برتنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنے کاز کے تئیں مخلص و دیانت دار نہیں ہوں گے ہماری صحافت بے اثر رہے گی۔اسی طرح انھوں نے نئے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت اور ٹریننگ پر بھی خاص طورپر زور دیا ۔
قبل ازاں مالیگاوں شہر کے پہلے بلاگر شکیل حنیف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے مطبوعہ صحافت کے ساتھ آن لائن صحافت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور انھوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا اور بلاگ وغیرہ کے استعمال کو ضروری قرار دیا ۔ـممبئی اردو نیوز سے وابستہ معروف صحافی فرحان حنیف وارثی نے کہا کہ بدلتے حالات میں جہاں صحافت نے الیکٹرانک میڈیم کو اختیار کرتے ہوئے ترقی حاصل کی ہے، وہیں اس کے کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مطبوعہ اخبارات کا سرکولیشن کم ہوگیا ہےـ ، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ـ شام نامہ ،مالیگاؤں کے صحافی جناب خلیل عباس نے کہا کہ دوسو سال کے عرصے میں اردو صحافت نے بڑی تبدیلیاں دیکھیں اور ترقیات حاصل کی ہیں، ـمگر اس وقت مجموعی طور پر اردو صحافت کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے،ـ ہمیں انھیں دور کرنے کے لیے اجتماعی غور و خوض کرنا چاہیے۔نیوز ۱۸ ناندیڑ کے ضمیر احمد خان نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نئے دور کی تکنیکی و ابلاغی ترقیات سے اپنے کو ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔نیوز ۱۸ ممبئی کے محی الدین عبداللطیف نے کہا کہ ـ وقت کے تقاضوں کو بر وقت سمجھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ہماری صحافت کی بقا کے لیے ضروری ہے،یہی وجہ ہے کہ ـ آج بڑے بڑے نیشنل و انٹر نیشنل اخبارات اپنی اصل شکل کے ساتھ ساتھ ای ایڈیشنز بھی نکالتے ہیں اور اپنی ویب سائٹس،سوشل سائٹس بھی اپڈیٹ رکھتے ہیں۔انھوں نے ـ اردو میڈیا کو کارپوریٹ سے بھی جوڑنے کی وکالت کی۔مالیگاؤں کے متحرک صحافی منصور اکبرنے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ، مگر پرنٹ میڈیا کی معنویت اب بھی برقرار ہے، البتہ نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ ترجمانِ اردو کے مدیر جناب یوسف ترجمان نے بھی صحافت کی بدلتی شکلوں پر روشنی ڈالی،ساتھ ہی انھوں نے اس پر بھی زوردیا کہ صحافی کو پروفیشنل اقدار کے ساتھ صحافت کرنی چاہیے،خبروں میں سسپنس پیدا کرنا اور معلومات کی صحت پر توجہ نہ دینا آج کے ابلاغی انقلاب کے دور کا بڑا المیہ ہے،جسے سنجیدہ و ذمے دار صحافیوں کو دور کرنے پر خاص توجہ دینی چاہیے۔
پروگرام کی نظامت کا فریضہ روزنامہ انقلاب کے نمایندہ جناب مختار عدیل نے بحسن و خوبی انجام دیا اور میلے کے تیسرے دن جناب شکیل انصاری کی تالیف کردہ کتاب’تذکرہ اولیائے خاندیس ‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا ۔ناشرین کی انجمن محبانِ اردو کتب کی مسلسل درخواست پر ضلع انتظامیہ کی جانب سے میلے کا وقت صبح دس بجے تا شام چھ بجے سے بڑھا کر دس بجے صبح تا نو بجے رات کیے جانے پر کونسل کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر جناب اجمل سعید اور میلے کے مقامی ذمے داران نے ضلع انتظامیہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

سمیر چودھری
DT Network

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر