Latest News

کشمیر میں پور ی طرح ناکام مودی حکومت۔

کشمیر میں پور ی طرح ناکام مودی حکومت۔
حسام صدیقی/ شبیر بٹ
لیڈ اسٹوری-جدید مرکز، لکھنؤ
سری نگر: اکتوبر کے پہلے ہفتے سے تیرہ دسمبر تک کشمیرمیں جس طرح دہشت گردوں نے اپنی حرکتوں کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانچ اگست ۲۰۱۹ کو جموں کشمیر سےدفعہ۳۷۰ ہٹانے کے وقت وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ نے کشمیر سے دہشت گردی ختم ہونے کے جو بڑے بڑے دعوے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کئے تھے سرکار ان دعوؤں پر کھری نہیں اتر پائی اور دہشت گردی روک پانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ تیرہ دسمبر کو سری نگر کے باہری حصہ جیون میں دہشت گردوں نے جس طرح پولیس کی بس پر حملہ کیا اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد پولیس اورسکیورٹی فورسیز کی ہر کاروائی کا جواب دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔تیرہ دسمبر کو ہی صبح سری نگر کے رنگریٹ علاقہ میں پولیس اور سکیورٹی فورسیز نے ایک غیر ملکی سمیت دو دہشت گردوں کو مار گرایا تھا تو اسی دن شام کو چھ بجے دہشت گردوں نے جیون میں حملہ کرکے تین پولیس والوں کو شہید اور ایک درجن کو زخمی کردیا۔ د ہشت گردوں کا یہ حملہ اس لئے بھی خطرناک ہے کہ جیون میں جس جگہ  یہ حملہ کیاگیا وہاں پر بی ایس ایف، سی آر پی ایف اور دیگر کئی سکیورٹی ایجنسیز کے کیمپ ہیں۔ اتنی محفوظ جگہ گھس کر تین دہشت گردوں نے اتنا بڑا حملہ کردیا اور بھاگ بھی  نکلے یہ  انتہائی فکر کی بات ہے۔
پولیس کے مطابق یہ حملہ تیرہ دسمبر کو شام چھ بجے پنتھا چوک کھونموہ روڈ پر جیون میں ہوا بس میں جموں کشمیر آرمڈ پولیس کی نوویں  بٹالین اور بھارتیہ ریزروپولیس کے پچیس جوان سوار تھے۔ بس آرمڈ پولیس کامپلیکس کے نزدیک پہونچ گئی تھی تبھی تین دہشت گردوں نے اس پر دونوں طرف سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کے مطابق تین دہشت گردوں میں دو غیر ملکی اور ایک کشمیری لگ رہاتھا۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ایک دہشت گرد زخمی بھی ہوا لیکن تینوں بھاگ نکلے۔ اس حملےمیں رام بن کے رہنے والے اے ایس آئی غلام حسن اور ماہور ریاسی کے رہنے والے کانسٹیبل شفیق علی موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ شدید طور پر زخمی جن تین پولیس والوں کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا  ان میں سے ایک رمیض احمد کا علاج کے دوران اگلے دن انتقال ہوگیا۔ زخمیوں میں کانسٹیبل سجاد احمد، عادل علی، ستبیر شرما، روی کانت، ارشد محمد، شوکت علی، سنجئے کمار، مدثر احمد، وشمبھر داس، عبدالمجید اور وکاس شرما شامل ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ لیفٹننٹ گورنر منوج سنگھ نے کہا کہ امن کے دشمنوں کو کسی بھی قیمت پر بخشا نہیں جائے گا اور حملہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
پولیس کی گاڑی پر یہ حملہ جس انداز میں کیاگیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا ارادہ پلوامہ دہرانے کا تھا، ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایک دہشت گرد نے بس میں گھس کر حملہ کرنے کی کوشش کی، سوال یہ ہےکہ جیون علاقہ  میں تقریباً سبھی طرح کی سکیورٹی فورسیز کے کیمپ ہیں اس کے باوجود اتنا خطرناک حملہ ہوگیا تو کیا اسے خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی نہیں کہا جانا چاہئے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اتنے کیمپ اور  ان کی سکیورٹی ہونے کے باوجود تینوں حملہ آور فرار کیسے ہوگئے۔ جبکہ ایک دہشت گرد تو زخمی بھی بتایا گیا ہے۔ اس وقعہ سے دو دن پہلے ہی باندی پورا میں دو پولیس والے دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوچکے تھے۔ لیفٹننٹ گورنر اس واقعہ کی چاہے جتنی مذمت کریں اور یہ کہیں کہ سخت کاروائی کی جائے گی حقیقت یہی ہے کہ لیفٹننٹ گورنر اور ان کی انتظامیہ دہشت گردوں کو قابو کرنے میں پوری طرح ناکام ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کو ملک کو بتانا چاہئے کہ کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ختم کرنے کے وقت ان لوگوں نے دہشت گردی ختم کرنے کے سلسلہ میں ملک سے جو بڑے بڑے وعدے کئے تھے ان کا کیا ہوا؟ آخر وہ وعدے کب پورے ہوں گے۔ کشمیر کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ دفعہ۳۷۰ ختم ہونے کے بعد ریاست میں دہشت گردی کے واقعات میں  کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس حملے میں پاکستانی دہشت گردوں کے شامل ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ آخر سرحد پار سے یہ دہشت گرد کشمیرمیں پہونچ کیسے رہے ہیں۔ اس حملےکی ذمہ داری کشمیر ٹائیگرس نام کی نئی دہشت گرد تنظیم نے لی ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ اس میں پاکستان دہشت گرد گرو ہ جیش محمد کا ہاتھ ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر