Latest News

آر ایس ایس کے بغیر کامیاب تحریک: حسام صدیقی

آر ایس ایس کے بغیر کامیاب تحریک: حسام صدیقی
آزاد بھارت میں ایک سال سے زیادہ مدت تک چلی ایک کامیاب کسان تحریک کی خاص بات یہ تھی کہ یہ شائد پہلی ایسی تحریک تھی جس میں آر ایس ایس نہ تو شامل رہا نہ آر ایس ایس کی کوئی مدد تحریک کو حاصل ہوئی۔ اس کے باوجود پرامن طریقے سےچلی یہ تحریک نہ صرف کامیاب رہی بلکہ کسانوں کے سامنےسرکار کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ آزادی کے پہلے بھی آر ایس ایس کے بغیر ۱۹۴۲ میں بھارت چھوڑو تحریک گاندھی جی نے چلائی تھی وہ بھی نہ صرف کامیاب ہوئی تھی بلکہ انگریزوں کو بھارت چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس وقت تو آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا دونوں نہ صرف بھارت چھوڑو تحریک کی مخالفت کررہے تھے بلکہ تحریک کے خلاف باقاعدہ لکھ کر برطانوی حکومت کو دیا تھا کہ وہ لوگ اس تحریک میں شامل نہیں ہیں۔ ان دونوں تحریک کے نتائج پر نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ اندر خانے سازش کرکے کچھ بھی کرلیں اگر کھل کر یہ کسی تحرک میں شامل ہوجاتے ہیں تو وہ کامیاب نہیں ہوتی۔
آزادی کے بعد ویسے تو ملک میں کئی تحریک ہوئیں لیکن دو تحریکوں کا ذکر یہاں مناسب لگتا ہے۔ ایک اندرا گاندھی کے دور میں جئے پرکاش نارائن کی تحریک اور دوسری من موہن سنگھ حکومت کے دوران انّا، رام دیو اور اروند کیجریوال وغیرہ کی تھی۔ دونوں ہی تحریکوں میں آر ایس ایس نہ صرف شامل رہی بلکہ دونوں تحریکوں میں بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا اور ہر طرح کا بندوبست کیا۔ یہ دونوں تحریک پوری طرح کامیاب اس لئے نہیں کہیں جاسکتیں کہ اس وقت کی سرکاروں نے تحریک چلانے والوں کے مطالبات تسلیم نہیں کئے تھے۔ بھلے ہی ان تحریکوں کی وجہ سے الیکشن میں اندرا گاندھی بھی ہار گئی تھیں اور من موہن سنگھ بھی۔ اندرا گاندھی کے خلاف ہوئی جے پی تحریک محض ڈھائی سال میںہی بے سود ثابت ہوگئی تھی کیونکہ ۱۹۷۷ کے الیکشن میں جیت کر جس جنتا پارٹی نے ملک میں سرکار بنائی تھی وہ سرکار ڈھائی سال بھی نہیں چلی۔۱۹۸۰ میں اندرا گاندھی دوبارہ سرکار میں آگئی تھیں۔ جنتا پارٹی کی سرکار گرنے کی وجہ بھی آر ایس ایس ہی بنا تھا۔ اس سرکار میں بھارتیہ جن سنگھ کے لیڈر کی حیثیت سے پنڈت اٹل بہاری باجپائی اور لال کرشن اڈوانی بھی شامل تھے۔

کسان تحریک ایک سال سے زیادہ چلی لیکن ایک بار بھی تحریک چلانے والےکسان کسی قسم کے تشدد میں ملوث نہیں پائے گئے۔ چھبیس جنوری۲۰۲۱ کو کسان ٹریکٹر ریلی کے دوران دہلی میں خصوصاً لال قلعہ پر جو کچھ ہوا تھا اسے کسانوں کا تشدد قرار دیا گیا۔ لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ وہ تو کسانوں کے خلاف سرکاری ایجنٹوں کی ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ غازی پور بارڈر ہو، ٹیکری ہو یا سنگھو بارڈر تینوں جگہ سال بھر سے جمے کسانوں کی جانب سے کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔ سنگھو بارڈر پر ایک دلت سکھ کے ہاتھ پیر کاٹ کر جلانے کا واقعہ پیش آیا۔ پہلے کسانوں پر شک ہوا لیکن چوبیس گھنٹے کے اندر ہی اس شخص کے ساتھ اتنی شرمناک اور گھناؤنی حرکت کرنے والے نہنگ سنگھ سامنے آگئے، جنہوں نے کہا اس شخص نے گروگرنتھ صاحب کی توہین کی تھی اس لئے اسے ہم نے سزا دی ہے۔ یہ نہنگ کسان تحریک کا حصہ نہیں تھے۔
کسان تحریک کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں چالیس سےزیادہ کسان تنظیموں نے مل کر کسان مورچہ بنایا تھا۔ اس مورچہ میں شامل کئی کسان تنظیموں کے لیڈران کو قسم قسم کے لالچ دیئے گئے، انہیں توڑنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی، دھمکا یا بھی گیا لیکن ایک بھی کسان تنظیم سازش میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ سیونکت کسان مورچہ میں شامل کسان تنظیمیں پہلے دن سے آخری دن تک ایک ساتھ مضبوطی سے متحد رہیں۔ انیس نومبر کو اچانک جب صبح سویرے وزیراعظم نریندر مودی نے تینوں کسانی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا تو اس کے فوراً بعد کسان تحریک ختم کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ غلام ٹی وی چینلوں میں خبریں چلوائی گئیں کہ پنجاب کے کسان تحریک ختم کرکے فوراً اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔ یہ سازش بھی کامیاب نہیں ہوئی، تحریک چلتی رہی ایک بھی کسان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ تبھی ہٹنے کو تیار ہوئے جب مودی سرکار نے ان کے باقی مطالبات یا تو مان لئے یا تحریری طور پر ماننے کی یقین دہانی کرائی۔
اس کسان تحریک کی دو اور اہم باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایک بار بھی بغیر غصہ کے راکیش ٹکیت نے میڈیا کے سوالات کےجواب دے کر خود کو ملک ہی نہیں دنیا بھر میں تحریک چلانے والے بڑے کسان لیڈروں میں شامل کرلیا۔ دوسرے یہ کہ وزیراعظم نریندر مودی جن کے لئے کہا جاتا ہے کہ تین سو سے زیادہ لوک سبھا ممبران کی طاقت پر سرکار چلا رہے ہیں اس لئے کسی بھی مدعے پر ان کے پیچھے ہٹنے یا ڈرنے کا سوال نہیں ہے۔ ان نریندر مودی نے جس انداز میں تینوں کسانی قوانین و اپس لئے اور اپنی سرکار سے کسانوں کا ایک ایک مطالبہ تسلیم کروایا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ پیچھے ہٹنے اور نہ کسی کے سامنے جھکنے کی طاقت رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنا اقبال بھی کھودیا ہے۔اب ان کی من مانی نہیں چلنے والی۔ کسانوں نے اب بھی کہا ہے کہ ان کی تحریک ختم نہیں ہوئی ہے ملتوی کی گئی ہے۔

اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۱۹ تا ۲۵ دسمبر، ۲۰۲۱

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر