Latest News

ایک غیر متنازعہ جماعت کو کیسے بنا دیا گیا متنازعہ؟

ایک غیر متنازعہ جماعت کو کیسے بنا دیا گیا متنازعہ؟
سمیر چودھری
بلا کسی شک و شبہ کہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت ایک غیر متنازعہ جماعت ہے لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں جس طرح میڈیا نے اسے اپنی سرخی بنایا اور حکومتوں نے اس کے خیر کے کاموں کو نظر انداز کرکے اس پر بے بنیاد الزامات عائد کرکے اسے نشانہ بنایا اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں فکری مندی پیدا ہونا لازمی امر ہے، حالانکہ تبلیغی جماعت سے علماءاور عوام کا اختلاف ہمیشہ سے رہاہے اور علماءنے بھی کچھ عوامی کاموں کو نظر انداز کرکے اس کی جدوجہد اور کاموں کو سراہا ہے۔ کئی معاملات پر کھل اختلاف بھی سامنے آیا لیکن اس کے باوجود کبھی اس کے عمل ،اسکی خیر خواہی،دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اس کی جفاکشی کو نظر انداز نہیں کیاگیا، حالانکہ گزشتہ سالوں میں تبلیغی جماعت کے درمیان آپسی خلفشار کے سبب پوری دنیا میں پھیلے اسکے عقیدتمندوں کو گہری تکلیف ہوئی تھی اور یہی وجہ کے علماءنے پہلی مرتبہ کھل کر اس کے کچھ کاموں پر اپنا اختلاف ظاہر کیا تھا، اتنا ہی نہیں بلکہ عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی اور صدر المدرسین مولاناسید ارشد مدنی سمیت ادارہ کے تقریباً ایک درجن موقر اساتذہ اور مفتیان کرام نے امیر جماعت مولانا سعد کے کئی بیانات پر شدید برہمی کو اظہار کرتے ہوئے باقاعدہ فتویٰ جاری کیا تھا۔ جس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں طلبہ کی تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی تھی ،جس کے لئے مہتمم صاحب کاتحریری بیان آیا تھا۔

یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے گزشتہ ایک صدی میں تبلیغی جماعت کے ذریعہ اللہ نے امت کے لاکھوں کروڑوں افراد کو ہدایت دی اور وہ اپنی زندگی و آخرت سنوارنے کے بعد دوسروں کے لئے بھی فکر مند نظر آئے۔ 1926 میں حضرت مولانا الیاس ؒ کی قائم کردہ اس جماعت کادائرہ اس قدروسیع ہے کہ آج پوری دنیا میں تقریباً ساڑھے تین سے چار کروڑ افراد تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ زبانی اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد اس جماعت کا حصہ ہیں۔
سال 2020ءمیں پھیلی کورونا مہاماری کے دوران تبلیغی جماعت کو میڈیا نے اپنی شہ سرخی بنایا اور بے بنیاد الزامات کی انتہاکرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو پور ی دنیا کی نظر میں مشکوک بنایادیا اور ایسی زبان کااستعمال کیا جس کی یقینی طورپر یہ سیدھے سادہ افراد کی جماعت قطعی مستحق نہیں تھی، منظم منصوبہ بندی کے تحت حالات یہاں تک پہنچا دیئے گئے تھے کہ پورے ملک میں کورونا کے لئے اسی تبلیغی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرادیا گیا تھا اور سرکاری اعداد و شمار میں الگ سے تبلیغی افراد کا ذکر کیاجاتا تھا، جس سے حکومتوں کی مذہبی سیاست کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتاہے۔
13 مارچ 2020ءکو دہلی مرکز میں منعقد ایک اجتماع سمیت ملک کے مختلف حصوں میں نہ صرف تبلیغی افراد پر مقدمات قائم کئے گئے بلکہ انہیں جیل تک پہنچایا گیا، لیکن اللہ نے عزت رکھی اور عدالتوں نے انہیں باعزت بری کیا، مگر اس جماعت کا حوصلہ دیکھئے کہ اس کے چہرہ پر ذرہ برابر شکن محسوس نہیں ہوئی۔ اب سعودی عرب نے ایک ایسا فیصلہ صادر کردیا ہے، جس سے مسلمانوں میں تشویش کا پھیلانا لازمی ہے، سعودی عرب نے جو انتہائی بے بنیاد الزامات عائد کرکے تبلیغی جماعت کو اپنے ملک میں بین کرنے کافیصلہ سنایا ہے وہ دنیا کے مسلمانوں کے لئے قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتاہے، جس کے خلاف مسلسل آوازیں اٹھائی جارہی ہیں اور یقین کامل ہے کہ سعودی عرب کو اپنے بے بنیاد اور پروپیگنڈہ موقف سے ہٹنا ہی پڑیگا۔ 
سعودی عرب میں شاہانہ زندگی گزارنے والوں کو ذرہ برابر اس بات کااحساس نہیں ہے کہ ہندوستان، چین اور سرلنکا جیسے درجنوں ممالک میں بے سرو سامانی کے حالات میں انتہائی محنت و جفاکشی کے ساتھ دین کی تبلیغ کاکام کرنے اور بھٹکے ہوئے افراد کو راہ راست پر لانے کے لئے کوششیں کرنے والوں پر اس فیصلہ کا کیا اثر ہوگا اور وہ کیسے ظلم کا شکارہوسکتے ہیں؟ اور اس معاملہ پر کیسے سیاسی فوائد اٹھاکر جملہ مسلمانوںکو مشکوک بنایا جاسکتا ہے۔ بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تمام تر اختلاف کے باوجود تبلیغی جماعت کی عظیم خدمات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے اور دین کے لئے اس کی محنت و جفاکشی اور جدوجہد کو کبھی بھی کم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہے گیں لیکن تبلیغ کا یہ سلسلہ انشاءاللہ چلتارہے گا۔

سمیر چودھری
DT Network

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر