مغربی یوپی میں ہائی کورٹ بینچ کے متعلق نہیں ہے کوئی تجویز، پارلیمنٹ میں حاجی فضل الرحمن کے سوال کا حکومت نے دیا جواب، وکلاءمیں ناراضگی۔
دیوبند: (سمیر چودھری)
سہارنپور سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن نے پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر قانون و انصاف سے مغربی پردیش میں ہائی کورٹ بنچ کے قیام کے متعلق سوال پوچھا۔ جس کے جواب میں مرکزی وزیر نے کہا کہ ہائی کورٹ بنچ کے قیام کے لیے حکومت کے پاس کوئی تجویز زیر التوا نہیں ہے۔
گزشتہ روز پارلیمنٹ میں ایم پی حاجی فضل الرحمن نے مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ کیا حکومت کے پاس مغربی اتر پردیش میں ہائی کورٹ بنچ کے قیام کی تجویز ہے، کیا حکومت نے ا س سلسلہ میں مغربی اترپردیش کے وکلاءکے وفد کو مدعوکرکے ان سے تجاویز مانگی ہیں۔ ایم پی حاجی فضل الرحمان کے سوال کے تحریری جواب میں مرکزی وزیر قانون و انصاف نے جسونت سنگھ کمیشن کی سفارشات اور عدالت عظمیٰ کے مطابق اس تجویز پر غور کرنے کے لئے متعلقہ ہائی کورٹ کے جسٹس کے علاوہ گورنر کی منظوری کے ساتھ ریاستی حکومت سے اس تجویز کی منظوری ہونی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ فی الحال حکومت کے پاس مغربی اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ کی بینچ کے قیام کے لیے کوئی مکمل تجویز زیر التوا نہیں ہے۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ 7 نومبر 2021 کو میرٹھ، مراد آباد، گوتم بدھ نگر اور مظفر نگر کی بار ایسوسی ایشن کے وکلاءکے ایک وفد نے وزیر قانون و انصاف سے ملاقات کی تھی اور مغربی اتر پردیش میں ہائی کورٹ بنچ کے لیے درخواست دی تھی۔
ایم پی حاجی فضل الرحمان نے وزیر کے جواب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی اتر پردیش کے عوام اور وکلاءکا بہت پرانا مطالبہ ہے۔ جس کے لیے بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے انتخابات سے پہلے اسے ایشو بنایا تھا، لیکن حکومت بننے کے بعد اسے ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا۔ ایم پی حاجی فضل الرحمن نے کہا کہ سہارنپور سے جموں ہائی کورٹ، پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش گوالیر ہائی کورٹ کا فاصلہ کم ہے لیکن اتر پردیش کے اپنے ہائی کورٹ الہ آباد کا فاصلہ زیادہ ہے۔انہوںنے اسے مغربی یوپی کے عوام کے ساتھ حکومت کی زیادتی بتایا ۔حکومت کے بیان پر وکلاءمیں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔
DT Network
0 Comments