نیلگیری بنتا جارہاہے ہوائی جہازوں کی قبرگاہ.... جنرل وپن راوت کے ہیلی کاپٹر کے علاوہ دو اور جہازوں کو نگل چکا ہے نیلگیری کا یہ پہاڑی علاقہ۔
تمل ناڈو کا جنت کہاجانے والا نیلگیری، اوٹی، میٹ پالیم کا وہ علاقہ جو کہ اونچی چوٹیوں خوبصورت وادیوں اور پہاڑیوں سے گھرا ہواہے،جسے ہندوستان کا دوسرا کشمیر کہاجاتاہے جہاں پوری دنیا سے سیلانی سالوں بھر سرد موسم کا لطف اٹھانےآیا کرتے ہیں،آج کل ایم 17 ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے اور جنرل وپن راوت کے مارے جانے کی وجہ سے سرخیوں میں ہے، مگر اوپر سے بے حد خوبصورت اور پہاڑوں کی پربت سے گھرا ہوا دلکش نظارے والا یہ شہر نہ صرف جنرل راوت کے ہیلی کاپٹر کے کریش کا نشان گاہ بنا ہےبلکہ اس سے پہلے بھی کئی اور جہازوں کو اپنے آغوش میں سما چکاہے
اور حیران کردینے والی بات یہ ہیکہ یہ تمام حادثے میں ایک مماثلت ہے،وہ ہے دسمبر کا مہینہ، اس وادی میں اب تک جتنے بھی کریش ہوئے ہیں وہ سب دسمبر ماہ میں ہی ہوئے ہیں۔
پہلا حادثہ دسمبر 1950 کا ہے جب ایئر انڈیا کا ایک کمرشیل جہاز اپنے مسافروں کو لیکر مدراس سے کووے جارہاتھا جب یہ جہاز فلائی کرتاہوا نیلگیری کے کنور میں واقع اسی وادی سے گزرا تو وہاں موجود رنگا سوامی پہاڑی کی چوٹیوں سے جاٹکرایا،جہاز کریش ہوا اوراس کے پرچخے اڑ گئے، جہاز میں سوار 4 اسٹاف سمیت 21 لوگ مارے گئے، وہاں پر موجود مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاز ایسے جنگلی علاقےاور مشکل ترین جگہ پر کریش ہوا تھا جہاں پر پولیس اور تفشیشی ایجنسیوں کو پہونچنے میں حد مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا، کافی مشقتوں کے بعد بھی جب جہاز کے ملبے کا علم نا ہوپایا تو آخرکار ملٹری و تفشیشی ایجنسیوں کویہ اعلان کرنا پڑا کہ جو شخص جائے حادثے کی نشاندہی کریگا اسے انعامات سے نوازا جائیگا اس کے باوجود ملٹری اور ایجنسیوں کو جائے حادثہ پر پہونچنے میں سات دن کا وقت لگا گیا، جب تک ہلاک ہوئے لوگوں کی ہڈیاں ہی باقی تھی باقی پہنچان و نشانات سب ختم ہوگئے ہاں جہاز کا ملبہ ضرور ملا،
مقامی لوگوں اور چشم دیدوں کا کہنا ہے کہ اس جہاز میں ڈھیڑ سارے سونے چاندی اور کیش تھے جسے مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر لوٹا اور اس سے بڑی بڑی محلیں اور جائدادیں بنائی اور مالا مال ہوگئے،
دوسرا حادثہ آج سے 35 سال قبل سنہ 1986 دسمبر مہینے کا ہے جب وہاں پر قائم ولنگٹن ملٹری ڈیفینس اکیڈمی
(جہاں جنرل راوت اپنے ایک پروگرام میں جارہے تھے) کا ایک فائٹر جیٹ نیلگیری کے اسی وادی میں کریش ہوکر جاگرا جس میں دو پائلٹوں کی موت ہوگئی، مقامی لوگوں و چشم دیدوں کا کہنا ہے کہ ایک بہت زوردار دھماکہ ہوا اور فائٹر جیٹ کریش ہوکر تباہ ہوگیا. ولنگٹن ملیٹری ڈیفینس اکیڈمی کو فورا اسکی اطلاع دی گئی اسکے بعد وہاں سے آئے آفیسروں نے مارے گئے دونوں پائلٹوں کے اعضاء کو اکٹھا کیا اور ریسکیو آپریش کو انجام دیا.
تیسرا حادثہ ابھی حال ہی کا ہے جب سولور سے ولنگٹن ڈیفینس اکیڈمی جانے کے راستے میں جنرل راوت کا M17 ہیلی کاپٹر کنور کے اسی وادی میں بھٹک کر پہونچا تبھی اچانک ایک درخت سے ٹکڑا کر حادثے کا شکارہوگیا، جس میں پائلٹ سمیت ۱۳ لوگوں کی جلکر موت ہوگئی،حیران کرنےاور چونکادینے والی بات یہ ہیکہ یہ تین کے تینوں حادثے ایک ہی علاقے اور دسمبر کے مہینے میں ہی واقع ہوئے ہیں،
اسکو اس طرح بھی دیکھا جاسکتاہے کہ دسمبر کے مہینے میں اس علاقے کا موسم کافی خراب اور دھند سے بھرا ہوتاہے جس کی وجہ سے یہ حادثہ ایک ہی مہینے میں واقع ہوا،دوسرا اس طرح بھی دیکھا جاسکتاہے کہ کچھ نامعلوم طاقتیں ہیں کہ جب اس کے اوپر سے کوئی شئے گزرتی ہے تو وہ نامعلوم طاقت اسے کچل دیاکرتی ہے.
ویسے شروعاتی جانچ کے بعد یہ بات کھل سامنے آرہی ہے کہ سولور سے ولنگٹن جانے والی تمام ہیلی کاپٹرس چتھی رام ایک گاوں ہے اسکے بغل سے گزرا کرتی ہے کیوں وہی اسکا روٹ لائن ہے مگر جنرل وپن راوت کا ہیلی کاپٹر اس گاوں کے اوپر سے گزرا جو کہ ایک نئی چیز تھی،اور اس گاوں کے اوپر سے گزرنے کے بعد اس وادی کے اوپر جا پہونچا جہاں ہمیشہ سے حادثہ ہوتا آیاہے، یعنی کہ جنرل وارت کے ہیلی کاپٹر کا روٹ بدلا ہوا تھا،روٹ کیوں بدلا گیا؟ پائلٹ نے خود روٹ بدلا یا اسے بدلنے کے لئے کہا گیا، یا خراب موسم اسکی وجہ تھی یہ سب جانچ کا موضوع ہے جانچ کے بعد ہی حقیقت سے پردہ اٹھ پائیگا.
وہاں پر موجود مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر کافی نیچے اڑ رہاتھا جو ان لوگوں کے لئے ایک نئی چیز تھی کیوں کہ اس علاقے میں کوئ ہیلی کاپٹر آتانہی ہے اور کچھ سکینڈ میں ہی وہ ہیلی کاپٹر دھند میں جا چھپا اور پھر ایک درخت سے ٹکرانے کے بعد کریش کی آوازیں سنائی دی اور پھر آگ لگ گئی، حادثے سے صرف چند سکینڈ پہلے کا وہ ویڈیو جس میں ہیلی کاپٹر کافی نیچے اور ڈراونی آواز میں دکھائی وسنائی دیتاہے پھر دھند میں چھپ جاتاہے اسے وہاں پر مقیم محمد ناصر نامی ایک شخص نے ریکارڈ کیا تھا جس ویڈیو سے جانچ میں تفشیشی ایجنسیوں کو کافی مدد مل رہی ہے،مقامی لوگوں لوگوں کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد جنرل وارت زندہ تھے اور انکی سانسیں چل رہی تھی اسی حالت میں جنرل راوت کو مقامی لوگوں نے ایک کمبل میں لپیٹا اور ایک پرائیوٹ ایمبولنس سے ہاسپیٹل پہونچایا جہاں پہونچنے سے پہلے انکی موت ہوچکی تھی، یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کے فورا بعد ریسکیوں آپریش میں مسلمانوں نے سب سے بڑا کردار ادا کیا اور جہاں تک ممکن ہوسکا ریلیف پہونچائی، جنرل راوت کو جس ایمبولنس سے اسپتال پہونچایا گیا وہ تمل ناڈو کی ایک مسلم تنظیم ٹی ایم ایم کے کی ایمبولنس تھی جو کہ جائے حادثے پر سب سے پہلے اپنے ریلیف ٹیم کے ساتھ پہونچی تھی، اس کے بعد ہی سرکاری ایمبولنس اور ملٹری آفیسروں کا آنا شروع ہوا....
DT Network
0 Comments