Latest News

ہندوستان میں مدارس کی تعداد کتنی ھے؟ مضمون نگار نے بہت احتیاط سے کام لیا: ابوالکلام قاسمی شمسی

ہندوستان میں مدارس کی تعداد کتنی ھے؟ مضمون نگار نے بہت احتیاط سے کام لیا: ابوالکلام قاسمی شمسی
ماضی میں یہ روایت رہی کہ بڑے اور معیاری درسگاہ کو مدرسہ کہا جاتا تھا، چھوٹے چھوٹے تعلیمی ادارے کو مکتب کہا جاتا تھا، مگر موجودہ وقت میں تعلیم کا فروغ ہوا، فارغین کی تعداد بڑھی، بڑے مدارس میں تدریسی خدمات کے لئے مواقع کم ھوئے، مہتمم کے ناز نخرے الگ، قلیل تنخواہ اور دوسری طرح طرح کی مصیبتیں الگ، ان سب دشواریوں کو دیکھتے ھوئے بعد کے فارغین نے آسانی اسی میں سمجھا کہ مدارس کا قیام عمل میں لایا جایا، گرچہ ضرورت اس کی متقاضی تھی کہ ابادی کے اعتبار سے ہر جگہ مکاتب قائم کئے جائیں اور بنیادی ابتدائی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔
 مکاتب نام میں کوئی چارمنگ نہیں تھی، اس لئے مکتب کے بجائے بڑے بڑے نام استعمال کئے جانے لگے، گاؤں کے بچے/بچیوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے مکتب قائم کیا گیا، اس کا نام مدرسہ رکھا گیا، اس میں وسعت سے کام لیا تو دارالعلوم نام رکھ دیا، یہی نہیں ،بلکہ اور آگے بڑھ کر اس کا نام جامعہرکھ دیا، ایسا لگتا ھے کہ یہ سب الفاظ مکتب ھی کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور سب اپنے معیار کے اعتبار سے برابر ہیں، مکاتب کے نام میں اس وسعت سے تو نتیجہ یہانتک پہنچ گیا ھے کہ ہندوستان کے تمام گاؤں، جن میں مسلمانوں کی آبادی ھے،وہاں مکتب کا قیام عمل آیا ھے اور ان گاؤں میں سے اکثر گاؤں ایسے ہیں، جن میں مکاتب ایسے ہیں جو مدرسہ، دارالعلوم اور جامعہ کے نام سے موسوم ہیں، اس طرح ہندوستان میں جتنے گاؤں ہیں، ان میں سے ایک چوتھائی گاؤں کو الگ کردیجیے، بقیہ گاؤں مدرسہ، دارالعلوم اور جامعہ قائم ہیں، مضمون نگار نے ہندوستان میں چالیس ہزار تعداد جو لکھا ھے،وہ بڑے اور مستند ادارے ہیں، ویسے نام کے اعتبار سے شمار کیا جائے تو ان کی تعداد چالیس لاکھ سے بھی زیادہ ھوگی۔

موجودہ وقت میں اس کی بھی ضرورت ھے کہ مدارس کی معیار اور درجات کے اعتبار سے نام رکھنے پر زور دیا جائے، مکتب، مدرسہ، دارالعلوم، جامعہ اصطلاحی الفاظ ہیں، ان کا استعمال اصطلاح کے مطابق کیا جائے ، تاکہ ان الفاظ کا بیجا استعمال نہ ھو۔

ابوالکلام قاسمی شمسی

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر