دارالعلوم دیوبند کے کچھ فتوؤں کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع، حقوق اطفال کمیشن نےحکومت کو جاری کیا نوٹس، سامنے آیا دارالعلوم دیوبند کا موقف۔
دیوبند: اب عظیم علمی دانشگاہ دارالعلوم دیوبند کے فتوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود کچھ فتوؤں کو ملکی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف حکومت سے کاروائی کرنے اور مذکورہ مواد کو ویب سائٹ سے ہٹائے جانے تک ویب سائٹ کی سروس بھی معطل کرنے کی مانگ کی گئی ہے، حالانکہ اس سے سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ ابھی ہمیں مذکورہ نوٹس کی کاپی نہیں ملی ہے، نوٹس ملنے پر اس کا جائزہ لیکر قانونی جواب دیا جائیگا۔
غور طلب امر ہے کہ حقوق اطفال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک شکایت کنندہ نے دار الافتاء کے کچھ فتاوی کو غیر قانونی گردانتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی ہے۔ اسی ضمن میں متبنیٰ کے فقہی مسئلہ پر دار العلوم دیوبند کی جانب سے دیئے گئے فتاوی کے سلسلہ میں ’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘(این سی پی سی آر)نے ایک شکایت کے نتیجہ میں سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کو ایک وضاحتی خط جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے فتاویٰ ملک کے قانون کے منافی ہیں، اس پر نوٹس لیا جانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں بچوں کے حقوق سے وابستہ ادارہ نے ریاست کے چیف سکریٹری سے کہا ہے کہ جب تک فتاوی سے وابستہ ان مواد کو ہٹادیا نہیں جاتا ہے، تب تک ویب سائٹ کو بلاک کردیا جائے۔ دراصل دار العلوم دیوبند کی جانب سے جاری ایک فتوی میں کہا گیا ہے کہ گود لئے گئے بچے کو اصل بچے جیسے حقوق نہیں مل سکتے ہیں ۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فتاوے قانون کے خلاف ہیں ۔
واضح ہو کہ کسی شخص نے کمیشن میں یہ شکایت درج کرائی ہے کہ دار العلوم دیوبند حقوق اطفال کے خلاف اپنی ویب سائٹ پر فتاویٰ جاری کر رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے، شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا ہے کہ دار العلوم دیوبند کہتا ہے کہ بچہ گود لینا غیر قانونی نہیں ہے، لیکن شریعت اسلامی کی روشنی میں گود لیا بچہ وراثت میں حقدار نہیں ہوگا اور بعد بلوغت اس سے شرعی پردہ بھی ضروری ہوگا۔ کمیشن نے اس شکایت کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے فتاویٰ دار العلوم دیوبند سے جاری ہوتے ہیں کہ اسکول کا نصاب تعلیم ،کالج یونیفارم، غیر اسلامی ماحول میں بچہ کی تعلیم اور مخلوط تعلیم نسواں جیسے متعدد موضوعات قابل اعتراض ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری شکایت میں مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دار العلوم دیوبند کے فتاویٰ اساتذہ کو اس بات کا حق دیتے ہیں کہ وہ بچوں کوجسمانی سزادے سکیں، جبکہ آرٹی ای قانون 2009 کے تحت تعلیمی اداروں میں بچوں کو ایذا رسانی ممنوع ہے۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ عوام الناس کو اس قسم کی معلومات فراہم کرنا جرم کرنے کی ترغیب کے زمرے میں ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ یہ قانون کے ذریعہ طے شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی ہے،کمیشن نے سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کو اس سلسلہ میں نوٹس بھیج کر ضروری کارروائی کئے جانے کی ہدایت کی ہے۔
سامنے آیا دارالعلوم دیوبند کا موقف۔
اس سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے "دیوبند ٹائمز" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہنوز کمیشن یا ضلع انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی نوٹس دار العلوم کو موصول نہیں ہوا ہے اور نا ہی دیگر معتبر ذرائع سے اس مبینہ نوٹس کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں، اس لئے ادارہ اس پر کوئی حتمی تبصرہ نہیں کرسکتا ،نوٹس مل جانے کے بعد اس کے مشمولات پر دستورہند اور مذہبی آزادی کی روشنی میں غور و خوض کیا جائے گا، اس کے بعد ہی کمیشن کے اقدام پر کوئی تبصرہ کیا جا سکتا ہے، البتہ دار العلوم دیوبند کے فتاو ی شر یعت اسلامی کی روشنی میں مستفتی کی طلب پر دئے جاتے ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ قومی حقوق اطفال کمیشن نے اس سلسلہ میں اتر پردیش کے چیف سیکریٹری ،ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ،قومی الیکشن کمیشن اور ریاستی الیکشن کمیشن کو بھی اپنے نوٹس کی تفصیلات ارسال کی ہیں جس میں کم و بیش دار العلوم کے دس فتاوی کو قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے ،کمیشن نے ضلع مجسٹریٹ کو بھیجے اپنے چار صفحہ پر مبنی مکتوب میں فوری طور پر اقدام کرنے کی تاکید کی ہے مورخہ ۱۵؍جنوری کا تحریر کردہ یہ نوٹس ابھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے تاہم دارالعلوم و انتظامیہ کو موصول نہیں ہوا ہے۔ صدر المدرسین مولانا سید ارشد مدنی کا بھی کہنا ہے کہ نوٹس ملنے پر اس کا قانونی جواب دیا جائیگا۔
سمیر چودھری
0 Comments