یوپی الیکشن میں مسلم ووٹروں کا سخت امتحان: نازش ہما قاسمی۔
ملک کی پانچ ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں الیکشن کمیشن نے سات مرحلوں میں انتخابات کا اعلان کردیا ہے۔ ۱۰ فروری سے شروع ہونے والے یہ انتخابات ۷ مارچ تک جاری رہیں گے اور دس مارچ کو ان پانچ ریاستوں کے نتائج کا اعلان ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی پارہ چڑھ گیا ہے۔ پنجاب ، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں تو وہ ہلچل نہیں ہے جو ہل چل یوپی میں ہے؛ کیونکہ یہ ریاستیں یوپی کے مقابل بہت ہی چھوٹی ہیں؛ اس لیے یہاں اتنی سرگرمیاں نہیں ہیں، یوپی اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یوپی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر ہی گزرتا ہے ۔یوپی کا الیکشن ۲۰۲۴ کے پارلیمنٹ الیکشن کا سیمی فائنل بھی ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ جو پارٹی یوپی میں اکثریت سے حکومت قائم کرتی ہے اس کےلیے پارلیمنٹ کا الیکشن جیتنا آسان تصور کیاجاتا ہے۔ یوپی میں فی الحال بی جے پی کی واضح اکثریت والی حکومت ہے اس سے قبل سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اور اس سے پہلے مایاوتی کی ۔ کانگریس یوپی سے ۱۹۸۹ سے ہی ختم ہے۔ اس سے قبل ۱۳ اگست ۱۹۸۰ میں مرادآباد عیدگاہ فائرنگ کا سانحہ پیش آیاتھا جس میں چالیس کے قریب مصلیوں کو پولس نے شہید کردیا تھا، ایمرجنسی کے نفاذ اور نس بندی کے اعلان، اور پھر بابری مسجد کے تعلق سے کانگریس کا منافقانہ رویہ ان سب چیزوں سے وہاں کے مسلمان ناراض ہیں اور جب سے مسلمان کانگریس سے روٹھے ہیں اترپردیش سے کانگریس دور ہوگئی ہے۔
کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو لوگ سیکولر سمجھتے ہیں بی جے پی کو فرقہ پرست؛ لیکن کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی کے دور اقتدار میں جو مظالم ہوئے ہیں مسلمانوں کے ساتھ وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اور کانگریس کے علاوہ بی ایس پی کبھی بی جے پی کی حمایتی بنی ہے تو کبھی ایس پی ۔ ایس پی کے سربراہ ملاملائم بارہا پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آئے ہیں اور مایاوتی کا کردار تو خیر واضح ہے۔
اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ یوپی کے مسلمانوں نے بہت سارے ادوار دیکھے ہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دور اقتدار بھی دیکھا جہاں مظفر نگر فساد ہوا، جہاں مرادآباد عیدگاہ قتل عام ہوا اور جہاں ہاشم پورہ کے نہتے مسلمانوں کو ندی میں ڈال کر گولیوں کا نشانہ بنادیاگیا۔ وہیں بی جے پی کا بھی دور اقتدار دیکھا ہےجہاں کلیان سنگھ کے دور اقتدار میں بابری مسجد کو شہید کردیاگیا اور یوگی کے دور اقتدار میں بابری مسجد رام مندر کو سونپ دی گئی، یوگی کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر کس طرح شکنجہ کسا گیا، انہیں کس طرح روزگار سے محروم کیاگیا، کس طرح لو جہاد کا شوشہ چھوڑ کر مسلم بچیوں کو مرتد بنانے کی مہم چھیڑی گئی، کس طرح مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی اسکیم چلائی گئی، مسلمانوں کی لنچنگ کا لامتناہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کے لیے سیکولر اور فرقہ پرست دونوں ایک ہی ثابت ہوئے ہیں، کوئی آرایس ایس کا کنفرم رکن ہے تو کسی کی دھوتی سے آر ایس ایس کی چڈی نظر آتی ہے، خیر مسلمانوں کےلیے دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ اب مسلمانان یوپی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی ایسی پارٹی بھی نہیں ہے جس کا تعاون کیاجائے اور نہ کوئی ایسا اتحاد و گٹھ بندھن جس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیاجائے کیوں کہ مسلمان سبھی کوآزما چکے ہیں۔
اترپردیش میں اویسی کی پارٹی سے بھی کافی ہلچل ہے۔ نوجوان مسلم ووٹرس اویسی کو ارطغرل ہند سمجھتے ہوئے نجات دہندہ تصور کررہے ہیں؛ لیکن یہ اترپردیش جیسی ریاست میں ممکن ہی نہیں ہے کہ اویسی کی پارٹی اقتدار میں آجائے ، کیونکہ صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار نہیں مل سکتا، اس کے لیے پچھڑی جاتیوں کے ووٹ درکار ہوتے ہیں اور پچھڑی جاتیاں ہمیشہ مستعمل رہی ہیں ان کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا وہ کب کس کے پالے میں میں چلے جائیں۔ ویسے ابھی دبی کچلی اور پچھڑی جاتیاں خاموش ہیں جس سے یوپی میں کنفیوژن کی صورت برقرار ہے اور یہ کنفیوژن بی جے پی کے حق میں معاون ہوسکتی ہے اورامکان ہے کہ دوبارہ بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے۔ اگر مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہوئی اور پچھڑی جاتیوں کے ووٹر یکمشت کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کو ووٹ دے دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ بی جے پی ختم ہوجائے ۔
ابھی یوپی میں ایک پارٹی سے چھلانگ لگا کر دوسری پارٹی میں داخلے کی کارروائی شروع ہے، کل تک جو فرقہ پرست تھے وہ آج سیکولر ازم کے امام بن گئے ہیں کل تک جو مسلمانوں کے تعلق سے اشتعال انگیزیاں کرتے رہے ہیں، جو مسلمانوں کے سروں پر انعام کا اعلان کرتے رہے ہیں وہ آج ان کے محافظ بننے کا بھی اعلان کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ بی جے پی کے ممبران اسمبلی دوسری پارٹیوں میں داخل ہوئے ہیں جس سے بی جے پی خیمے میں بھگدڑ ہے۔ بعض سیاسی ماہرین اس دل بدل کو آر ایس ایس کی چانکیہ نیتی قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی اپنی یقینی شکست کو دیکھ کر دوسرا راستہ اپنا رہی ہے، یہ ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں جاکر جیت حاصل کرنے کے بعد پھر سے بی جے پی کی گود میں آگریں گے اور بعض کا کہنا ہے کہ واقعتاً وہ لوگ ناراض ہیں اور اپنے ٹکٹ کاٹے جانے کے خوف سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا سہارا لیا ہے۔ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون کس مقصد سے کہاں آیا تھا اور کہاں گیا تھا۔
آخری بات: سوال یہ ہے کہ یوپی کا مسلمان کسے ووٹ دے، بی جے پی کے خوف سے اکھلیش کو، بی جے پی کے خوف سے مایاوتی کو، بی جے پی کے خوف سے کانگریس کو، کس کو آخر ووٹ دے۔ بعض اکابرین اویسی کو سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے۔ تو ہونے دیں؟ میرے خیال سے یوپی میں مسلمانوں کے لیے اپنی سیاسی قوت پیدا کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس جو مسلمانوں کا نام تک نہیں لیناچاہتے، جو مسلمانوں کو محض دری بچھانے اور اسٹیج سجانے کااہل سمجھتے ہیں انہیں اویسی کی وجہ سے احساس تو ہوجائے کہ مسلم ووٹوں کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں انہیں یہ احساس دلانے کےلیے اویسی کی حمایت ضروری ہے بھلے سے اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے ۔اس سے خوفزدہ نہیں ہوناچاہئے جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کانگریس، ایس پی، بی ایس پی کی حکومت آئی تو کیا گیارنٹی ہے کہ مظفر نگر جیسا سانحہ نہیں ہوگا، کیا گیارنٹی ہے کہ گیان واپی مسجد اور متھرا شاہی عیدگاہ پر آنچ نہیں آئے گی۔ کوئی ضمانت نہیں پھر کیوں سیکولرازم کا جنازہ اکیلے ناتواں کندھوں پر ڈھوتے رہیں۔
0 Comments