Latest News

ہاں میں شہید سلطان ٹیپو ہوں: نازش ہما قاسمی۔

ہاں میں شہید سلطان ٹیپو ہوں: نازش ہما قاسمی۔
جی فتح علی نواب ٹیپوسلطانؒ بہادر، شیر میسور، مجاہد آزادی، منصف و عادل حکمراں، باشرع ، دین محمدی کا پاسدار، مرد مومن، سادگی پسند، دینی ودنیا وی علوم کا ماہر، سماجی مصلح،رحم دل حکمراں، بہترین منتظم، ماہر معاشیات ، راکٹ ومیزائل سازی کا موجد، انگریزوں کے چھکے چھڑانے والا،عسکری تربیت یافتہ، بہترین شہسوار، جری وبے باک، نڈر وبے خوف، حلیم وبردبار، زاہدو عابد جس کی تکبیر اولی کبھی فوت نہ ہوئی، مسلمانان ہند کے شاندار ماضی کا امین سلطان شہید ٹیپو علیہ الرحمہ ہوں۔ میری پیدائش بنگلور کے دیہی ضلع دیوانہالی میں ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ کو ریاست میسور کے سلطان حیدرعلی کے گھر بزرگوں کی دعائوں کی برکت سے ہوئی۔ میری والدہ کا نام فاطمہ فخر النساء تھا ، میرا اسم مبارک حضرت ٹیپو مستان ولی کے نام پر رکھا گیا کیوں کہ میری والدہ محترمہ کو کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی انہو ں نے والد بزرگوار سے کہا کہ ہم کیوں نہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں نیک صالح اولاد سے نوازے ، اس لیے میرے والدین حضرت ٹیپو مستان ولی کی درگاہ پر حاضر ہوئے اور فاتحہ خوانی کے بعد اولاد نرینہ کےلیے دعا مانگی جسے اللہ نے شرف قبولیت بخشا اور میں اس دنیائے فانی میں نمودار ہوا۔ والد بزرگوار بھی نہایت جری وبہادر اور فنون سپہ گری کے ماہر تھے، انہوں نے راجہ میسور کی ملازمت کے دوران مراٹھوں سے جنگیں کیں ،ریاست کو اپنی بہادری سے بچائے رکھا؛ لیکن بعد میں راجہ میسور کی نا اہلی کی وجہ سے انہیں معزول کرکے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور میسور کے تخت پر بیٹھ گئے ، والد محترم نے پچاس سال تک انگریزوں کو اپنی طاقت وقوت سے جنوبی ہند میں داخل ہونے سے روکے رکھا۔ ہاں میں وہی سلطان شہید ٹیپو ؒ ہوں جو افغانی النسل ہے۔ دادا محترم افغانستان سے ہجرت کرکے جنوبی ہند میں آباد ہوگئے تھے۔ میرا خاندان کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوابوں اور شاہوں کا خاندان نہیں تھا، ملازمت پیشہ خاندان تھا، والد محترم ان پڑھ اور فوج میں ملازمت کرتے تھے؛ لیکن اپنی فطری ذہانت اور فنون سپہ گری میں مہارت کی بدولت ریاست میسور کے والی مقرر ہوئے، ان پڑھ ہونے کے باوجود پانچ مختلف زبانوں میں گفتگو پر قادر تھے، عظیم قوت حافظہ کےمالک تھے،،انہوں نے میری تعلیم وتربیت کے لیے اس وقت کے اعلیٰ تعلم یافتہ اساتذہ کی خدمات لیں، جس کی وجہ سے مجھے دینی ودنیاوی علوم پر دسترس ہوئی، تعلیم کے ساتھ ساتھ میری تربیت پر بھی خصوصی دھیان دیاگیا اور میں پندرہ سال کی عمر سے ہی فوج کی کمان سنبھالنے لگا۔ خصوصی تربیت اور فطری بہادری کی وجہ سے میں کم سنی میں ہی مختلف لڑائیوں میں شریک ہوا اور میدان کار زار کا بہترین سپاہی قرار پایا۔ ۲۴؍ سال کی عمر میں میری شادی سرنگا پٹنم میں رقیہ بانو اور ایک دیگر خاتون سے ہوئی۔ ۳۲ سال کی عمر میں والد محترم کے حکم پر مالا بار ساحل کی جانب انگریزوں سے لڑنے کےلیے گیا ہوا تھا اسی درمیان والد محترم کے انتقال کی خبر پہنچی اور آرمی کیمپ تک روانہ ہوا جہاں والد محترم کا جسد خاکی رکھا ہوا تھا، موت کو خفیہ رکھا گیا تھا؛ تاکہ میں جلد از جلد وہاں پہنچ کر قیادت اپنے ہاتھوں میں سنبھال لوں؛ لیکن والد بزرگوار کی موت کی خبر سازشی ٹولے نے فاش کردی جس کی پاداش میں مجھے اپنے فاترالعقل بھائی کریم اور منصوبہ سازوں کو گرفتار کرکے جیل میں بند کرنا پڑا۔ ۳۳ سال کی عمر میں ریاست میسور کا سلطان مقرر ہوا اور اس وقت میں نے یہ کہا تھا کہ’’میں فرنگیوں سے جنگ لڑرہا ہوں نہ کہ اپنے لوگوں کے خلاف جنگ لڑرہا ہوں‘‘ ۔ والد محترم کے انتقال سے انگریز بہت خوش ہوئے؛ لیکن میرے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے ہو ش وحواس اڑ گئے۔ اور میں پوری قوت وطاقت سے دو طرفہ محاذ پر جنگ لڑتا رہا، سلطنت میں توسیع کرتا ہوا پورے ہندوستان کے لوگوں کی متحدہ آواز بن گیا ۔ہاں میں وہی ٹیپو سلطان شہید ہوں جس نے دلتوں کو ان کے حقوق دئے، دلت خواتین کو عزت بخشی، مظلوموں کی مدد کی، ظالموں پر قہر بن کر ابھرا، فرقہ پرست مجھے متنازعہ اور شدت پسند کہتے ہیں جبکہ میں نے مسلمان رہتے ہوئے اپنے دور حکومت میں کسی غیر مسلم پر ظلم نہیں کیا، ان کے ساتھ آپسی رواداری کا معاملہ کیا، ان کے دکھ درد میں شریک ہوا، اور بحیثیت رعایا ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا۔ ہاں میں وہی ٹیپو سلطان شہید ہوں جس نے کہا تھا کہ 'شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے' میں نے انگریزوں سے لڑنے کےلیے ہندوستان کی دیگر آزاد ریاستوں کے حکمرانوں کو اتحاد کی دعوت دی؛ لیکن مفاد پرست حکمرانوں نے میری آواز نہ سنی اور اکثر انگریزوں کے زیر اثر رہے، انگریز ہندو مسلم نفرت کو بڑھا وا دیتے رہے، گنگا جمنی تہذیب میں شگاف ڈالتے رہے اور پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے پورے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھتے ہوئے سرنگا پٹنم کی طرف آدھمکے، انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ جب تک میسور ان کے زیر اثر نہیں آجاتا ہندوستان پر قبضہ مکمل نہیں ہوگا اسی کو عملی جامہ پہنانے کےلیے میسور کا محاصرہ کرلیاگیا۔ پوری دنیا سے میرے روابط توڑ دیے گئے، میرے وفاداروں نے غداری کی اور تاریخ نے ۴؍مئی ۱۷۹۹ کا وہ المناک دن بھی دیکھا جس دن میری شہادت ہوئی اور انگریز جنرل کویقین نہیں ہورہا تھا کہ وہ فتح یاب ہوگیا ہے، میری لاش ڈھونڈی جارہی تھی، ایک جگہ میری لاش وفاداروں کے جمگھٹے میں نظر آئی اور مجھے میری آہنی تلوارجو کہ میرے فولادی بازو میں تھی اس کی وجہ سے پہچان لیا گیا ، میری لاش سے سکون وطمانیت کا اظہار ہورہا تھا، آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور جسم گرم تھا؛ لیکن میری روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ جب جنرل ہیرس نے میری لاش کو دیکھا تو مجھے سیلوٹ کیا اور کہا ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی‘‘ ۔ میری وفات پر صرف مسلمان ہی نہیں رویا ، ہندو رویا، دلت رویا، عیسائی رویا، سکھ رویا، حتی کہ پورا ہندوستان رویا، جب میری قبر کھودی جانے لگی تو آسمان بھی روپڑا اور اس طرح رویا کہ بجلی کوند رہی تھی، بادل گرج رہے تھے، اور پورا شہر تربتر تھا۔ لیکن کوئی اگر خوشی منا رہا تھا تو وہ تھا غدار وطن میر صادق اور دیوان پونیا وہ شراب نوشی میں مگن تھے اور غداری ان کے چہروں پر پھٹکار برسا رہی تھی۔ میری لاش پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنائی گئی اور اس کے بعد میسور کی گلیوں میں صف ماتم بچھ گئی۔آہ و فغاں بلند ہونے لگے۔ ہر مذہب ومسلک کے ماننے والے غم میں رورہے تھے۔ اور آج بھی پورا ہندوستان بلالحاظ مذہب ومسلک میری قبر پر آکر خراج عقیدت پیش کرتاہے۔ ہاں میں وہی شہید ہوں جو زندہ ہوں تابندہ ہوں اور زندہ و جاوید رہوں گا ۔ لاکھ میرے نام کو نصابی کتابوں سے ہٹا دیاجائے، نسل نو جو حقیقی ہندوستانی ہوں گے، وہ میری لازوال تاریخ ہی پڑھیں گے، مسخ شدہ تاریخ کو وہ قبول نہیں کریں گے، فرقہ پرستی کے تحت میری جینتی نہ منائی جائے ، میرے نام سے موسوم پارک بنائے جانے پر ہنگامہ کیاجائے ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں عظیم تھا عظیم ہوں اور عظیم رہوں گا جو لوگ میری حب الوطنی پر شک کررہے ہیں وہی اصل غدار وطن ہیں۔ میں تو فرنگیوں سے لڑکر جام شہادت پینے والا مرد مجاہد ہوں مجھ سے انگریز خوف کھاتے تھے، تاریخ سے میرے نام کو حذف کرکے دوسروں کے نام ڈالنے والے اسی 'ویر کی نسل سے ہیں جس ویر نے انگریزوں سے معافیاں مانگی تھیں اور ان فرنگیوں کے سامنے گڑگڑائے تھے میں گڑگڑایا نہیں، ملک کا سودا نہیں کیا؛ بلکہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوا، اپنے خون سے نہا کر خاک وطن میں حب الوطنی کا درس دیتے ہوئے پیوست ہوگیا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر