Latest News

دیوبند سیٹ پر ہمیشہ رہا ہے ٹھاکروں کا قبضہ، ایس پی سے معاویہ علی کو نہیں ملا ٹکٹ، کارتکیہ رانا نے داخل کیا پرچہ، جانیئے کیا کہتے ہیں دیوبند اسمبلی سیٹ کے اعداد و شمار۔

دیوبند سیٹ پر ہمیشہ رہا ہے ٹھاکروں کا قبضہ، ایس پی سے معاویہ علی کو نہیں ملا ٹکٹ، کارتکیہ رانا نے داخل کیا پرچہ، جانیئے کیا کہتے ہیں دیوبند اسمبلی سیٹ کے اعداد و شمار۔
عالمی سطح پر اپنی منفرد شناخت رکھنے والے دیوبند شہر کی اسمبلی سیٹ اس مرتبہ پھر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے کیونکہ یہاں سے توقع کے برخلاف سماجوادی پارٹی نے مسلم لیڈر وسابق رکن اسمبلی معاویہ علی کو نظر انداز کر کے سابق ریاستی وزیر آنجہانی راجندر سنگھ رانا کے بیٹے کارتکیہ رانا کو امیدوار بنایا ہے۔ پیر کے روز کارتکیہ رانا نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کر دیا ہے، لکھنؤ سے جاری ہوئی فہرست میں بھی ان کا نام جاری کر دیاگیا۔
پرچہ نامزدگی کے وقت ان کے ساتھ ضلع کے سینئر لیڈر عمران مسعود بھی رہے، عمران مسعود نے دیوبند سمیت سبھی ساتوں سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کی جیت کا دعوی کیا۔ حالانکہ کہ معاویہ علی کو ٹکٹ نہ ملنے کے سبب کچھ لوگوں میں ناراضگی بھی ہے، سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے، سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹھاکروں کے ووٹ تقریبا تیس ہزار ہیں لیکِن اس سیٹ پر سماج وادی پارٹی اور بی جے پی دونوں کی طرف سے ٹکٹ ٹھاکر سماج کو ہی دیا گیا ہے جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد ووٹ رکھنے والے مسلمانوں کو ایس پی نے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔
       فوٹو: عمران مسعود کے ساتھ دائیں کارتکیہ رانا۔

یہ ہیں دیوبند سیٹ کے آنکڑے۔
حالانکہ دیوبند اسمبلی سیٹ کے اگر ہم اعدادوشمار پیش کریں تو آپ کو حیرت ہوگی مسلم مذہبی شناخت رکھنے والے اس شہر کی اسمبلی سیٹ پر آزادی کے بعد سے اب تک ٹھاکر سماج کا ہی دبدبہ رہا ہے۔1952 سے 2017 کے درمیان تین موقع ایسے آئے ہیں جب یہاں سے کسی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی امیدوار کامیاب ہوا ہے اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم سماج کو ستر سال میں صرف دو مرتبہ ہی اس اسمبلی سیٹ کی نمائندگی کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے، حالانکہ کہ ایک بار محض ایک سال کے لیے ہی ضمنی الیکشن میں معاویہ علی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ جبکہ سماجوادی پارٹی بھی یہاں سے صرف ایک مرتبہ 2012 میں کامیاب ہوئی، اس وقت آنجہانی راجندر رانا نے جیت حاصل کی تھی۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر الیکشن میں تقریباً تمام پارٹیوں کی نظریں دیوبند پر ہوتی ہیں۔ اس سرزمین نے عظیم سیاستدان پیدا کیے ہیں۔ لیکن مسلم سیاست میں یہ قصبہ آج بھی بہت پیچھے ہے۔
                   معاویہ علی۔
دیوبند میں۔اس وقت کل 3,47,527 ووٹر ہیں۔ یہاں 1,85,901 مرد ووٹرز ہیں جبکہ 1,61,611 خواتین ووٹرز ہیں۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو سنہ 1952 سے لے کر اب تک دیوبند سیٹ پر ٹھاکروں کا ہی قبضہ رہا ہے۔ 2017 تک کے انتخابات کی سب سے اہم بات یہ رہی ہے کہ یہاں ٹھاکر برادری کے زیادہ تر ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔ ایسا صرف تین بار ہوا جب غیر راجپوت برادری کے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ معاویہ علی نے 2016 کے ضمنی انتخاب میں کانگریس امیدوار کے طور پر دیوبند سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سے پہلے 2007 کے اسمبلی انتخابات میں گوجر برادری کے منوج چودھری نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر ایس پی امیدوار راجندر سنگھ رانا کو شکست دی تھی۔
          بی جے پی رکن اسمبلی کنور برجیش سنگھ
تھوڑا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو دیوبند کے سابق چیئرمین مولانا عثمان نے 1977 کے اسمبلی انتخابات میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا، اُنہوں نے ٹھاکر مہاویر سنگھ کو شکست دے کر دیوبند کی نمائندگی غیر راجپوت کے طور پر کی۔ اکثر اس سیٹ پر راجپوتوں کا غلبہ رہا۔ ٹھاکر پھول سنگھ نے یہ سیٹ تین بار جیتی۔ پھول سنگھ نے 1952، 1962 اور 1967 کے اسمبلی انتخابات جیتے۔ ٹھاکر مہاویر سنگھ بھی تین بار یہاں کامیابی حاصل کے۔ مہاویر سنگھ نے 1969، 1980 اور 1985 میں کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر جیتا تھا۔ آزاد اُمیدوار کے طور یشپال سنگھ بھی 1957 میں جیتے تھے۔ 
1991 میں جنتادل سے وریندر ٹھاکر، 1993 میں بی جے پی سے ششی بالا پنڈیر، 1996 میں بی جے پی سے سکھبیر سنگھ پنڈیر، 2002 میں بی ایس پی سی راجندر سنگھ رانا، 2007 بی ایس پی سی منوج چودھری، 2012 میں ایس پی سے راجندر سنگھ رانا، 2016 میں راجندر رانا کے انتقال کے بعد ہوئے ضمنی الیکشن میں کانگریس سے معاویہ علی اور 2017 بی جے پی کے برجیش سنگھ نے یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی۔
    بی ایس پی اُمیدوار چودھری راجندر
 اب 2022 کی تیاریاں عروج پر ہیں، بی جے پی اور سماجوادی پارٹی دونوں ہی پارٹیوں نے ٹھاکر سماج کو ٹکٹ دیا ہے، بی جے پی نے موجودہ رکن اسمبلی پر ایک مرتبہ پھر اعتماد ظاہر کیا جبکہ ایس پی آر ایل ڈی الینس نے کرتکیہ رانا کو ٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ مایاوتی نے ایک بار پھر گجر سماج سے امیدوار منتخب کیا ہے۔ 
         عمیر مدنی
اس درمیان آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے خاندان مدنی کے چشم و چراغ عمیر مدنی کو اپنا امیدوار بنایا ہے، حالانکہ کانگریس نے ابھی اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا، وہیں معاویہ علی کے اگلے قدم پر بھی سبھی کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ دیوبند کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر جب یہاں سے جو امیدوار منتخب ہوا ہے اسی کی یوپی میں حکومت بھی بنی ہے لیکن ترقی کے نام پر آج بھی یہ عالمی شہرت یافتہ قصبہ کوسوں پیچھے ہے۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر