Latest News

نواب ملک کی گرفتاری ،ایجنسیوں کا کھیل اور مہاراشٹرا کی سیاست: شکیل رشید

نواب ملک کی گرفتاری ،ایجنسیوں کا کھیل اور مہاراشٹرا کی سیاست: شکیل رشید 
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 
اور نواب ملک گرفتار کرلیے گئے۔
حکومت مہاراشٹر کے کابینی وزیر کی گرفتاری کی خبر کوئی بہت تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ نواب ملک کے  ’انکشافات‘ سے جس طرح سے ریاست کے بھاجپائی اور مرکز کی مودی سرکار بے نقاب ہوتی جارہی تھی ، اس سے یہ یقین ہوچلا تھا کہ جلد یا بدیر ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ نواب ملک کو جس طرح تمام قانونی اصول وضوابط کو طاق پر رکھ کر گرفتار کیا گیا ، وہ بھی باعثِ حیرت نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ جتانا تھا کہ ’چاہے جو کہہ لو ، چاہے جو کرلو ، راج ہمارا ہے اور ہم اپنی مرضی چلائیں گے۔‘  
اس گرفتاری نے دو بہت ہی اہم حقائق کو اجاگر کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ جب ایک ریاست کے کابینی وزیر کو ، ہرطرح کے اصول وضوابط کو نظرانداز کرکے اس کے گھر میں گھس کر آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جاسکتا ہے تو عام شہریوں بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں وپچھڑوں کے ساتھ پولس اور ایجنسیاں کیسا معاملہ کرتی ہوں گی ؟ اور دوسرا یہ کہ اس ملک کا مسلمان چاہے جس قدر قوم پرست ہو جائے ، چاہے وہ جس قدر ہی بھائی چارے اور قومی یکجہتی کا ثبو ت دے، اس کا نام دہشت گردوں ، داؤد ابراہیم اور انتہا پسندوں کے ساتھ نتھی کرنے میں ، نہ ہی مفاد پرست سیاست دانوں کو ہچکچاہٹ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے آقاؤں کے اشارے پر ناچنے والی ایجنسیوں کو ۔ 
نواب ملک کے بارے میں یہ دعویٰ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاسکتا ہے کہ وہ نہ ہی تو دہشت گردوں ، انتہا پسندوں اور داؤد ابراہیم جیسے مافیا سربراہوں کے ساتھی ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ملک وقوم کے مفادات کے دشمن ۔ جس نے بھی نواب ملک کی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے اُسے یہ کہنے میں قطعی جھجھک نہیں ہوگی کہ انہیں ملک کے مفادات اپنے ذاتی مفادات سے زیادہ عزیز ہیں ۔۔۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی اپنی کمیونٹی کے لوگ یعنی مسلمان عموماً ان سے اس لیے ناراض رہتے ہیں کہ وہ ان کے مفادات پر ملک کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ، تو غلط نہیں ہوگا۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) میں نواب ملک کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ وہ کابینی وزیر تو ہیں ہی پارٹی نے انہیں قومی ترجمان بھی بنارکھا ہے۔ پارٹی سپریمو شردپوار نے ان کی گرفتاری کے بعد باقاعدہ یہ اعلان کیا ہیکہ نواب ملک سے وزارت سے استعفیٰ نہیں لیا جائے گا ۔ این سی پی کی حلیف سیاسی پارٹی شیوسینا نے ، جس کے پرمکھ ادھوٹھاکرے ان دنوں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ہیں، شردپوار کو درست قرار دیتے ہوئے خود یہ کہا ہیکہ ان کی حکومت نواب ملک کو وزارت پر برقراردیکھنا چاہتی ہے ۔ 

مہاوکاس اگھاڑی کی تمام حلیف جماعتیں ، شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس ، نواب ملک کی گرفتاری کے بعد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی ہیں ۔ پوری ریاست میں گرفتاری کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے ہیں اور شردپوار سے لے کر ادھو ٹھاکرے تک ہر چھوٹے بڑے سیاسی رہنما نے بہت ہی واضح طور پر کہا ہے کہ مرکز کی بی جے پی کی سرکار حزب اختلاف کے خلاف ای ڈی ، سی بی آئی، انکم ٹیکس اور دوسرے محکموں کا استعمال کررہی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے نے تو باقاعدہ یہ کہا ہیکہ مرکزی حکومت ریاستوں کے اختیارات کو سلب کرنے پر اتارو ہے اور اس کے لیے باقاعدہ مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ شیوسینا کے قائد ، ایم پی راجیہ سبھا سنجئے راؤت نے انتہائی سخت لفظوں میں مرکزی ایجنسیوں کے استعمال پر نکتہ چینی کی ہے ۔ گویا یہ کہ نواب ملک کی گرفتاری کے بعد حکومت مہاراشٹر اور مرکزی سرکار ایک دوسرے کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں ۔ ویسے تو دونوں ہی مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت کے قیام کے بعد ہی سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں ، لیکن نواب ملک کی گرفتاری نے اس لڑائی میں مزید شدت پیدا کردی ہے ۔ اور اب یہ آرپار کی لڑائی بن گئی ہے ۔ 
حکومت مہاراشٹر کو آر پار کی لڑائی لڑے بغیر کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے کیونکہ اگر اس نے پیٹھ دکھائی تو اسے سیاسی محاذ پر زبردست ہزیمت اٹھانا پڑے گی ۔ ریاست کے سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس تو ابتدا ہی سے اس کوشش میں لگے ہیں کہ یہ حکومت گر جائے ۔ لوگ ابھی بھی اسمبلی الیکشن کے بعد کے ۳۵ دنوں کا سیاسی کھیل نہیں بھول سکتے ہیں ۔ فڈنویس نے این سی پی کے اجیت پوار کے ساتھ مل کر ادھو ٹھاکرے کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شردپوار کی حکمت عملی کے سامنے فڈنویس فیل رہے ، وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے ہی بنے ۔ اور جہاں تک بات اجیت پوار کی ہے تو انہیں سب سے بڑا فائدہ حاصل ہوا ، ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش واپس لے لی گئی۔ پوار خاندان فڈنویس اور بی جے پی کی سیاست پر غالب رہا ۔ لیکن فڈنویس نے ابھی بھی شکست تسلیم نہیں کی ہے اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سے مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار گرجائے اور وہ پھر سے مہاراشٹر کی گدی پر متمکن ہوجائیں۔ اگر حکومت گرتی ہے تو بلاشک وشبہہ ای ڈی ، انکم ٹیکس اور سی بی آئی وغیرہ کی کارروائیاں مزید تیز ہوجائیں گی اور ادھو ٹھاکرے کے صاحبزادے ، کابینی وزیرآدتیہ ٹھاکرے سے لے کر سنجے راؤت واجیت پوار تک متعدد سیاست دانوں پر شکنجہ کس جائے گا ۔ ایک سیاسی پارٹی کے طور پر شیوسینا کے سامنے بھی سلسلے وار مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور اسے پھر سے قدم جمانے کے لیے بڑی تگ ودو کرنا پڑے گی ۔ بال ٹھاکرے جیسے کرشماتی اور راج ٹھاکرے جیسے شعلہ بیان لیڈروں کی کمی اس کی مصیبتوں میں اضافہ کردے گی ۔ ادھو ٹھاکرے ، سنجے راؤت اور شردپوار کو حالات کا خوب اندازہ ہے اس لیے اب وہ آر پار کی لڑائی کے لیے تیار ہیں ۔ 
 نواب ملک کی گرفتاری مذکورہ سیاسی منظر نامہ کا ہی ایک حصہ ہے ۔ یہ گرفتاری مہاوکاس اگھاڑی کو کمزور کرنے کی ، اس کے ایم ایل اے حضرات کو خوف زدہ کرکے اپنے پالے میں لانے کی ایک کوشش ہی ہے ، لیکن فی الحال یہ کوشش اسی قدر ناکام نظر آتی ہے جس قدر کہ پولس افسر سچن وازے اور سابق پولس کمشنر پرمبیر سنگھ کے ذریعے مہاوکاس اگھاڑی کے ایک قد آور قائد ، وزیرداحلہ انیل دیشمکھ کی گرفتاری کے بعد ، ناکام نظر آئی تھی۔ ابتدا میں تو یہی لگا تھا کہ انیل دیشمکھ کی گرفتاری مہاوکاس اگھاڑی سرکار کو لے ڈوبے گی لیکن اگھاڑی سرکار ہنوز اپنے قدموں پر جمی ہوئی ہے ، اور دیشمکھ کی گرفتاری کا سارا کھیل بی جے پی کے لیے بے فائدہ ثابت ہوا ہے ۔ اب نواب ملک کی گرفتاری سے بی جے پی اپنا مقصد نکالنے کے لیے کوشاں ہے ۔ ریاست بھر ہی میں نہیں یوپی اسمبلی کے الیکشن میں بھی بی جے پی نے نواب ملک کی گرفتاری کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ مہاراشٹر میںایک جانب جہاں نواب ملک کے استعفے کے لیے بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں وہیں دوسری جانب نواب ملک کے ساتھ داؤد ابراہیم کے پتلے جلاکر اس لڑائی کو ’ قومی لڑائی‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے اور یوپی میں اس کا زوروشور سے پرچار کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہیکہ داؤد بھارت کا دشمن ہے لہٰذا ہر وہ شخص ملک کا دشمن ٹھہرا جس کے نام کے ساتھ داؤد کا نام نتھی ہوجائے ۔ نواب ملک کےنام کے ساتھ داؤد کا نام جوڑ کر یہی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہیکہ نواب ملک قوم کے دشمن ہیں اور ان کی پارٹی این سی پی بھی قوم دشمن ہے ۔ ہاں بس ایک ہی پارٹی ہے ، بی جے پی جو قوم پرست بھی ہے اور قوم دشمنوں کی دشمن بھی لہٰذا لوگ شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس کا دامن چھوڑیں اور بی جے پی کا دامن تھام لیں ۔ 
لیکن شردپوار کے صرف ایک بیان نے کہ ’’جو مسلمان ہوتا ہے اُسے داؤد ابراہیم سے جوڑ دیا جاتا ہے ‘‘ بی جے پی کی مہم کی ہوا نکال دی ہے ۔ شردپوار نے مذکورہ بیان کے ساتھ ہی خود اپنے اوپر داؤد ابراہیم سے سازباز رکھنے کے الزام کا بھی حوالہ دیا تھا ، ایک ایسا الزام جسے بی جے پی نے لگایا تو تھا مگر آج تک ثابت نہیں کرسکی ہے ۔ شردپوار نے اپنے بیان سے یہ واضح اشارہ دیا ہیکہ جس طرح ان پر لگا الزام بے بنیاد تھا اسی طرح سے نواب ملک پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے ۔۔۔
کیا الزام ہے نواب ملک پر ؟ اس سوال سے پہلے یہ جان لیں کہ نواب ملک نے نارکوٹکس کنٹرول بیورو( این سی پی ) کے سابق زونل ڈائرکٹر سمیر وانکھیڈے کے خلاف جو مہم چلائی تھی اور جس میں کمبوج اور فڈنویس سمیت کئی بھاجپائی لیڈروں کے نام آئے تھے اور جس طرح انہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ این سی پی کے ذریعے بی جے پی ’ وصولی‘ کررہی ہے ، اس نے بی جے پی کو ، مہاراشٹر میں بھی اور مرکز میں بھی ،کافی نقصان پہنچایا تھا اور آج بھی اس کے نقصانات بی جے پی جھیل رہی ہے ۔ سمیر وانکھیڈے اور ان کے ساتھ جن افراد کے نام آئے تھے بشمول بھاجپائی لیڈران ، وہ سب آج بھی آزاد ہیں ،لیکن ان کا پردہ فاش کرنے والے نواب ملک سلاخوں کے پیچھے چلے گئے ہیں ۔ ای ڈی نے ان پر چند املاک کی خریداری کے حوالے سے ڈی کمپنی سے تعلق ، دہشت گردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا ہے ۔ الزام ہیکہ نواب ملک نے داؤد کی بہن حسینہ پارکر کی ، کرلا کی ایک جگہ جس کی مالیت تین کروڑ روپئے تھی ۸۵ لاکھ روپئے میں خریدی تھی۔ ۳۰؍ لاکھ روپئے سیلس ایگریمنٹ میں تھے اور باقی نقد دیئے گئے تھے ۔ ای ڈی کا کہنا ہیکہ نواب ملک نے ’فرضی ٹیننٹ‘ دکھاکر زمین کی رجسٹری مالیت کو گھٹانے کا ’جرم ‘ کیا ہے ۔۔۔ خیر، اس معاملے کی ابھی تفتیش ہونا ہے ، پھر عدالتی کارروائی چلنی ہے ، فی الحال سوال یہ اٹھ رہا ہیکہ ۱۹۹۹ء کے معاملے میں پی ایم ایل اے یعنی منی لانڈرنگ کے انسداد کے قانون مجریہ ۲۰۰۲ء کا استعمال کیوں کیا گیا ؟ نواب ملک کے وکیل، ایڈوکیٹ امیت دیسائی کا یہ سوال ہیکہ کیا یہ قانون لگاکر ای ڈی یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ مہاراشٹر کا ایک منتخب عوامی نمائندہ قوم مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے ؟ ای ڈی پر جو سوال اٹھ رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ غیر جانبداری سے کام نہیں لے رہی ہے ۔ مثلاً علی الصبح کسی کے گھر میں گھس کر کیا چھاپہ مارا جاسکتا ہے ؟ کیا نوٹس دینا ضروری نہیں ہے ؟ ان سوالوں سے ہی یہ سوال بھی اٹھ رہا ہیکہ آخر ا ی ڈی ، انکم ٹیکس اور دیگر ایجنسیوں کو حزب اختلاف کی ہی برائیاں کیوں نظر آتی ہیں ، کیا بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے سارے سیاست داں دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ؟ کیا مرکزی وزیر کا وہ بیٹا جو کسانوں پر کار چڑھا دیتا ہے پاک وصاف ہے ،اور اس کا باپ بے گناہ؟سنجے راؤت ، دیشمکھ ، اجیت پوار، یشونت جادھو یہ چند نام ہیں جن پر مرکزی ایجنسیوں نے کارروائیاں کی ہیں۔ اور یہ وباء صرف مہاراشٹر تک ہی محدود نہیں ہے یو پی سے لے کر راجستھان اور ایم پی ودہلی تک یہی کھیل کھیلا جارہا ہے ، اگر دہلی میں ’ نیشنل ہیرالڈ‘ کے بہانے راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کی سی بی آئی انکوائری ہورہی ہے تو یوپی میں چند عطر فروشوں پر چھاپے مارکر ایس پی سپریمو اکھلیش یادو کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ۔ اعظم خان ، مختار انصاری ، عتیق احمد تو ہیں ہی صف میں ۔ سوال یہ ہیکہ جب مودی سرکار میںوی وی آئی پی ہی محفوظ نہیں تو عام آدمی کیسے محفوظ رہے گا ؟

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر