Latest News

’روس ۔یوکرین جنگ‘ اسلامی ممالک کےلیے سبق: اتواریہ: شکیل رشید۔

’روس ۔یوکرین جنگ‘ اسلامی ممالک کےلیے سبق: اتواریہ: شکیل رشید۔
روس، افغانستان یا عراق نہیں ہے، اور نہ ہی روس، لیبیا، فلسطین یا شام ہے کہ امریکہ اپنے حلیفوں کے ساتھ دندناتا ہوا آئے اور چڑھ بیٹھے اور اتنی بمباری کرے کہ ماسکو کی عمارتیں اور سڑکیں کھنڈربن جائیں۔ روس، روس ہے ایک بڑی طاقت اور کسی طاقت سے ٹکرانے کے لیے بہت ساری طاقتوں کے اتحاد کو بھی بہت کچھ سوچنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ اس میں ایک سبق اسلامی ممالک کےلیے بھی ہے۔ اسلامی ممالک میں عراق کو ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا، لیکن چونکہ روس کی طرح اس کی طاقت نہیں تھی اس لیے وہ امریکی حملوں میں سرنگوں ہوگیا۔ اگر عراق واقعی ایک بڑی طاقت ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا ۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ تو بجی لیکن چونکہ افغانی ہار مانننے کو تیار نہیں تھے، بالخصوص طالبان اس لیے تباہی و بربادی کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کو جھکا نہیں سکے۔ اس سے پہلے روس، افغانستان کے معاملات میں دخیل تھا لیکن افغانیوں نے اسے ایسی شکست دی کہ اس کے حصے بخرے ہوگئے۔ لہذا اسلامی ممالک کو اگر واقعی میں امریکہ اور امریکہ کے حلیفوں کی غلامی سے بچنا ہے تو انہیں اول تو بڑی طاقت بننا ہوگا، پھر انہیں اپنے اندر افغانیوں جیسی جرات اور ہمت پیدا کرنا ہوگی، اور ایک تیسری بات بھی ہے، انہیں ہر حالت میں متحد ہونا ہوگا۔ اگریہ تین باتیں اسلامی ممالک میں آگئیں تو سمجھ لو کہ انہیں کوئی بھی طاقت کوئی بھی اتحاد جھکا نہیں سکے گا۔ اب یوکرین کا معاملہ دیکھ لیں؛ ایک زمانہ میں یہ روس کا حصہ تھا، اس کے پاس ایٹمی ہتھیار وں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا، روس سے آزادی کے بعد اس نے اپنے سارے ایٹمی ہتھیار تباہ کردئے تھے او رساری دنیا کی شاباشی پائی تھی، لیکن کیا آج کی دنیا میں بنا کسی طاقت کے کوئی ملک پنپ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی بھی ملک کمزور رہ کر نہ پنپ سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ طاقتور ممالک اسے ہڑپنے کےلیے سرپرسوار رہتے ہیں۔ اگر یوکرین نے اپنے ایٹمی ہتھیار ضائع نہیں کیے ہوتے تو روس آسانی کے ساتھ اس پر حملہ نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ طاقتور ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم کو سرد کرنے کےلیے اتنے ہتھیار رکھے جائیں کہ کوئی حملے کے بارے میں اگر سوچے بھی تو ان ہتھیاروں کے ذخائر سے اس کی سوچ بدل جائے۔ طاقت کا توازن اگر درست نہیں ہوگا تو ایک کمزور اور دوسرا طاقتور ہوگا اور طاقت ور ہمیشہ کمزور کو دباتا رہے گا۔ دنیا میں امن وامان کے قیام کےلیے یہ ضروری ہے کہ طاقت کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ بات اسلامی ممالک کے حوالے سے اس لیے شروع کی تھی کہ نشانے پر اسلامی ممالک ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، فلسطین، لیبیا، سوڈان، اور یمن کی مثالیں سامنے ہیں۔ یہ سب یوروپی اور امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ سعودی عرب اب نشانے پر ہے، ایران سے اس کے اختلافات کو ہوا دینے کا مقصد دونوں کے درمیان جنگ کو بھڑکانا ہے، ظاہر ہے کہ نقصان میں اسلامی ممالک ہی رہیں گے، فائدہ یوروپ اور امریکہ کا ہوگا، مالی فائدہ بھی اور سیاسی فائدہ بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ ممالک طاقتور بنیں ، اسلحے حاصل کریں، متحد ہوں اور آپس میں جنگ سے بالکل گریز کریں۔ دوسروں کے بھروسے نہ رہیں ورنہ حشر یوکرین جیسا ہی ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر