نبوت ورسالت کاسلسلہ قیامت تک کے لیے ختم ہوچکا ہے، آل انڈیا تحریک تحفظ سنت ومدح صحابہ کے پہلے دن سالانہ اجلاس سے مولانا ابوطالب رحمانی اور مولانا ایوب قاسمی و دیگر کے خطابات
آل انڈیا تحریک تحفظ سنت و مدح صحابہ کے زیر اہتمام منعقدہ عظیم الشان سالانہ اجلاس عام کا آغاز 21 فروری پیر کے دن شب ۹ بجے ہوا، اجلاس کی صدارت تحریک کے باوقار صدر حضرت مولانا ابو حنظلہ عبد الاحد صاحب قاسمی نے کی،آج اجلاس کا پہلا دن تھا، پورا پروگرام تحریک کے یوٹیوب چینل پر لائیو نشر کیا گیا ۔صدر محترم نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں تحریک کے اغراض و مقاصد اور اسکی اہمیت و افادیت کو جامع و اختصار کے ساتھ بیان فرمایا، بعدہ اکابرین کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے،تلاوت قرآن کریم و نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجلس کے آغاز کےلئے تحریک کے مؤقر رکن مولانا ذکوان حسینی قاسمی کو مدعو کیا گیا ماشاء اللہ انھوں نے اپنی مسحور کن اورسریلی آواز میں تلاوت قرآن اورنعت پاک پیش فرمائی، اسکے بعد ناظم اجلاس نے آج کے مہمان مقرر،فاتح قادیانیت، مولانا سید محمد ایوب قاسمی صاحب کو دعوت خطاب دی،انکا موضوع تھا "عقیدہ ختم نبوت و رد قادیانیت" مولانا نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ کی ایک کتاب" ختم نبوت کامل" کے نام سے ہے، جس میں مفتی صاحب نے عقیدہ ختم نبوت کو 110 آیات اور 220احادیث و اجماع امت سے ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں جسکے بعد قطعی طور پر کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آئیگا اب اسکے بعد جو بھی دعوی نبوت کریگا وہ کافر ہے ,انھوں نے کہا کہ قرب قیامت میں سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام بھی اپنے نبی ہونے کا اعلان نہیں کرینگے ۔صاحب عقیدۃ الطحاوی نے ہر قسم کی نبوت کے دعوی کو کفر فرمایا ہے جیسے ظلی ,بروزی,امتی ,تبعی وغیرہ، آیت ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین ,کی شاندار شرح فرماتے ہوئے انکا کہناتھا کہ رسول تو اور بھی بہت آئے مگر آپ ﷺ کی رسالت کو صفت ختم نبوت کے ساتھ متصف کردیاگیا، اور یہ تعلیم دی گئی کہ اب کوئی دروازہ نبوت کو توڑنے کی کوشش نہ کرے، مولانا نے اس عقیدے کو مدلل کرتے ہوئے ایک مشہور حدیث بہ طور دلیل پیش فرمائی قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی،انھوں نے مزید کہا کہ قادیانی ایمان کے ڈاکو اورلٹیرے یہاں آکر ختم نبوت کی غلط تعریف بتا کر امت کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں پھر آپ نے ختم نبوت کی جامع تعریف فرمائی جس سے بہت سارے اشکالات خود بخود رفع ہو جاتے ہیں،فرمایا کہ ختم نبوت کی تعریف یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور رسول پیدا نہیں ہوگا، دوسرا مطلب اب کسی کو نبی ورسول نہیں بنایا جائیگا،رد قادیانیت پر کلام کرتے ہوئے انکا کہنا تھاکہ مرزائیوں کا دعوی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے ,تو گویا ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کی تصدیق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے،قادیانی بہ طور دلیل سورہ جمعہ کی یہ آیت واٰخرین منھم لما یلحقو بہم پیش کرتے ہیں، انکا یہ دعوی روحانی خزائن ایک غلطی کا زالہ صفحہ نمبر ۸تا ۱٠ پر موجود ہے، مولاناقاسمی نے مزید کہا کہ مرزا ملعون کا نہ صرف دعوی نبوت ہے بلکہ اپنے آپکو خاتم النبین بھی کہا ہے روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ میں مذکورہ دعوی موجود ہے ,الغرض اس ملعون نے 1901 میں دعوی نبوت کیا اور 1908میں ذلت کی موت مر کر واصل جہنم ہو گیا لعنہ اللہ،
اسکے بعد ناظم اجلاس نے خطاب کےلئے ایک دوسرے مقرر، تحریک کے مشفق سرپرست اورملک کے نامور خطیب، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب کلکتہ کو دعوت دی مولانارحمانی تشریف لائے اوراپنے مقررہ عنوان "حالت حاضرہ اور ہماری ذمہ داریاں " پرخطاب کیا،انھوں نے ایک مثال کےذریعے اپنی بات شروع فرمائی، اورکہا کہ آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ میٹھا ہوتا ہے اور زراعت بھی خوب ہوتی ہے اگرچہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے،اگر بارش کے پانی کو ہم جمع کر کے رکھیں تو قحط سالی پر کنٹرول ہو سکتا ہے انھوں نے کہا کہ اللہ جب کسی کو نیکی کا موقع دیتا ہے تو میٹھے پانی کی طرح ہوتا ہے ہم جب موقع ٹال دیتے ہیں تو کھارا پانی کی طرح ہوتا ہے۔فرمایا کہ اللہ نے ہمیں وطن عزیز ملک ہندوستان کو ہمارے مسکن کے طور پر منتخب فرمایا ہے بہت پیارا ملک ہے اور جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہ قوم ہزاروں کروڑوں خداؤں کو مانتی ہے، افسوس ہے کہ ہم انکو ایک خدا کا تعارف نہ کراسکے،ہم کسی کا مذاق نہ اڑائیں کسی کے طریقہ عبادت کا تمسخر نہ کریں، زمانہ قریب میں ایک بہت بڑے اللہ والے عالم گزرے ہیں حضرت مولانا محمد عمر پالن پوریؒ آپکے سامنے کسی کافر کا جنازہ گزرا آپکی آنکھوں میں آنسو آگئے، جنازہ دیکھکر آپ رونے لگے کہ یہ سب میری دعوت ایمان نہ دینے سے ہوا ہے، اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دنیا کو ہدایت دینا ہماری ذمہ داری نہیں لیکن کوشش کرنا ہمارا کام ہے،کیاہم اپناکام کررہےہیں؟ ہمیں یہ سوچنا ہوگا، انھوں نے مزید کہا کہ ملک کے حالات کو ہم دیکھیں مسلمانوں کو گھیرا جا رہا ہے فٹ بال گیم کی طرح، یہ گھیرا بندی کیوں ہو رہی ہے؟ اس پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہے، 2014 کے بعد تو حالات ظاہر ہوئے ہیں پلاننگ تو بہت پہلے سے ہو رہی تھی،مولانا رحمانی جوایک اچھے مقررہونے کےساتھ ساتھ ایک اچھے تاجر بھی ہیں،انھوں نے کناڈا کے چرچ کے ایک ذمہ دار کے ایمان قبول کرنے کا ایک واقعہ بھی سنایاکہ انکو یعنی پادری کو مطالع ادیان کا بڑا شوق تھا انہوں نے اسلام کو پڑھنے کےلئے بہت ساری کتابیں خریدی،پیسے دستیاب نہیں تھے تو انہوں نے اپنی کار بیچ کر کتابیں خریدیں، اللہ نے ہدایت دی اسلام قبول کیا حج بیت اللہ کوگئے، روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی، سفر سے واپسی پر ہندوستان کے شہر ممبئی حاضر ہوئے لوگوں نے والہانہ استقبال کیا ،چند روز لوگوں میں رہنے کے بعد وہ کہنے لگے کہ مسلمانو! میرے اور تمہارے درمیان ایک فرق ہے، وہ یہ کہ میں نے کار بیچ کر اسلام خریدا ہے اور تم نے اسلام بیچ کر کار خریدی ہے،انھوں نے مزید فرمایا کہ ملک میں عوام کا بھروسہ علماء سے اٹھتا جارہا ہے،وجہ یہ نہیں ہے کہ آج علماء صلاحیت مند نہیں رہے، وجہ یہ نہیں کہ مدارس نہیں ہیں، وجہ یہ بھی نہیں کہ مساجد نہیں ہیں،بلکہ وجہ یہ ہے کہ اعتماد کےلئے صلاحیت کی نہیں کردار کی ضرورت ہے،صلاحیت زبان سے بولتی ہے اورکردار چہرہ سے بولتاہے، انکامزید کہنا تھاکہ حبشہ ہجرت کے موقع پر نجاشی نے ابو سفیان سے جو اس وقت کافروں کا سردار تھا،نجاشی نے پوچھا،کیا محمد جھوٹ بھی بولتے ہیں؟ ابو سفیان نے کہا بادشاہ سلامت ہماری ان سے دشمنی اپنی جگہ عداوت اپنی جگہ مگر محمد جھوٹ نہیں بولتے یہ تھا کردار محمدﷺ ،شاید ابوسفیان کو بھی اللہ نے اسی سچائی پر بعد میں ایمان کی توفیق دی ہو،اسکے بعد
تییسرے اورآخری مقررکودعوت خطاب دی گئی مولانا آصف اعظمی صاحب کو جو تحریک کے اہم ذمہ دار،معروف مناظر اورضلع اعظم گڑھ کی ایک اہم شخصیت ہیں،مولانا محمد آصف صاحب اعظمی نے "رضاخانیت کا تعارف " کے عنوان پرخطاب کیا،دوران خطاب انھوں نے کہا کہ فرقہ بریلویت مولوی احمد رضاخان صاحب کی ایجاد کردہ جماعت ہے اسکے بانی کا سن پیدائش 1856 میں انہوں نے بنیادی علوم اپنے والد مولوی نقی علی سے حاصل کی اسکے بعددیگر علوم کی تکمیل کی، الغرض جس زمانہ میں انگریزوں کے خلاف علماء دین نے جہاد کے فتوے دیے تھے اسوقت انگریز کو کسی ایسے ضمیر فروش مولوی کی ضرورت تھی جو انکے حق میں فتوی دے اور مسلمانوں میں آپس میں انتشار پیدا ہو،اس زمانہ میں پہلا نام تو مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے ,دوسرا نام مولوی احمد رضاخان کا ہے،تیسرا نام حسین احمد بٹالوی کا آتا ہے،مولوی احمد رضا خان نے انگریز کی ایماء پر ہندوستان کو دارالاسلام قرار دے دیا یہیں سے پہلا اختلاف شروع ہوا،پھر انہوں نے عرب جاکر وہاں کے علماء کو بھڑکایااورگمراہ کیا، اسکے رد میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے "الشہاب الثاقب" تحریر فرما کر اس فتنہ کا پردہ فاش کیا الغرض انہوں نے انگریزوں کو خوش کرنے کےلئے ہر محاذ پر بدعات کو رائج کیا،نور و بشر ,علم غیب ,حاضر و ناظر وغیرہ اختلافات کو فروغ دینا شروع کردیا، مولانا محمد آصف اعظمی صاحب کی کےخطاب کےبعد،اخیر میں صدر محترم نے تمام مہمانان و ناظرین و سامعین کا شکریہ اداکیا،پروگرام کی نظامت مولانا عبدالاحد قاسمی نے کی، تقریبا ساڑھے گیارہ بجے دعاء کے ساتھ پہلی نشست اختتام کوپہونچی،تحریک کے اراکین وذمہ داران کے علاوہ علماء وعامتہ المسلمین کی ایک بڑی تعداد شریک اجلاس رہی۔
(یہ رپورٹ تحریک تحفظ سنت ومدح صحابہ کے مرکزی آفس جامعہ حسینہ دیوبند سے جاری کی گئی ہے)
0 Comments