مسلم خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنا خلاف دستور، عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ کا استدلال، اسی ہفتے فیصلہ ممکن۔
بنگلورو : (مدثر احمد) کرناٹک حکومت نے منگل کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ ادارہ جاتی نظم و ضبط اور معقول پابندیوں کے ساتھ ہندوستان میں حجاب پہننے پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر حجاب پر پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے اڈپی ضلع کی درخواست گزار مسلم لڑکیوں کے بالمقابل حکومت کا موقف رکھتے ہوئے کرناٹک کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے کہا کہ ہیڈ اسکارف پہننے کا حق 19(1)(A) کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ آرٹیکل 25 جیسا کہ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے۔ ادارہ جاتی نظم و ضبط اور معقول پابندیوں کے ساتھ ہندوستان میں حجاب پہننے پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر حجاب پر پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے اڈپی ضلع کی درخواست گزار مسلم لڑکیوں کے بالمقابل حکومت کا موقف رکھتے ہوئے کرناٹک کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے کہا کہ ہیڈ اسکارف پہننے کا حق 19(1)(A) کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ آرٹیکل 25 جیسا کہ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے۔آج کی سماعت کے ساتھ ہی توسیعی بینچ کی آٹھ سماعتیں مکمل ہوگئیں اور عدالت سے آج بھی با حجاب طالبات کیلئے کوئی راحت نہیں ملی۔ البتہ آج عدالت نے کہا کہ وہ اس ہفتے کے اندر ہی اس معاملے کو طے کرنا چاہتی ہے۔ عدالت نے اس کے لیے فریقین سے تعاون کی بھی اپیل کی، اب عدالت کی اگلی سماعت بدھ کو ہوگی۔ منگل کو سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے حکومت کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ انسانی وقار میں آزادی شامل ہے جس کے تحت خواتین کو حجاب پہننے یا نہ پہننے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ اے جی نے عدالت کو بتایا کہ حجاب کی حمایت میں درخواست گزاروں میں خواتین کی تنظیموں کی قیادت کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ایسے لوگوں کو خواتین کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس زیب النسا قاضی اور جسٹس کرشنا ایم ڈکشت کی فل بنچ کو ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب فوج میں داڑھی بڑھانے کے حق سے انکار کیا گیا اور مزید کہا کہ انفرادی انتخاب کا مظاہرہ کرنے کے لیے ادارہ جاتی نظم و ضبط کی ضرورت نہیں تھی۔ایسی صورتحال میں درخواست گزار کا دعویٰ خالصتاً مسلم خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنا ہے جو آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے اسے لازمی نہیں بنایا جا سکتا، اسے خواتین کی پسند پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اے جی نے عدالت کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ پابندی صرف کلاسوں کے اندر اور کلاس کے اوقات میں تمام مذاہب کے طلباء پر لاگو ہوتی ہے۔ مزید بحث کرتے ہوئے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ 19(1)(A) کا آزادانہ دعویٰ آرٹیکل 25 کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ نوادگی کے مطابق اگر حجاب کو ایک لازمی مذہبی عمل قرار دیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حجاب کو نہ پہننے کی صورت میں اُنہیں اسلام سے ہی خارج قرار دیا جائے گا۔فرانس کی مثال پیش کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل نوادگی نے کہا کہ فرانس میں عوامی جگہوں پر حجاب پر مکمل پابندی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرانس میں اسلام مذہب نہیں ہے۔ مزید کہا کہ "میں فرانس کا حوالہ اس لئے دے رہا ہوں تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ حجاب اسلام کے لئے ضروری ہے یا نہیں۔" اے جی نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان میں حجاب پہننے پر کہیں پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن ہر ادارے کا اندرونی ضابطہ اور نظم و ضبط ہوتا ہے، جس کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔یاد رہے کہ ہائی کورٹ کی سنگل بینچ میں شانتی پرکاشن کا قران مع ترجمہ پیش کرکے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام میں حجاب ایک ضروری مذہبی عمل ہے، اس کے جواب میں سرکاری وکیل نوادگی نے آج شیعہ بوہرہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ سید یوسف علی کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوا قران کا نسخہ پیش کیا اور سورہ نمبر 2، آیت نمبر 144 ، آیت نمبر 145 اور آیت نمبر 187 کے ساتھ ساتھ سورہ نمبر 17، آیت نمبر 2 اور آیت نمبر 17 کا حوالہ پیش کیا۔کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا کہ وہ حجاب کے معاملے کو اس ہفتے میں ہی نمٹانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے تمام عرضی گذاروں سے تعاون طلب کیا گیا۔ جیسے ہی سماعت شروع ہوئی، درخواست گزار لڑکیوں کے وکیل نے کرناٹک ہائی کورٹ کی بنچ سے درخواست کی کہ عدالت مسلم لڑکیوں کو کچھ نرمی دے جو اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننا چاہتی ہیں۔دودن تک مسلسل سرکار کا موقف پیش کرتے ہوئے دلائل دینے والے سرکاری وکیل نوادگی نے آج بھی ڈھائی بجے سے چار بجے تک اپنا موقف پیش کیا اور حجاب کو ضروری اسلامی عمل نہ ہونے کی بات ثابت کرنے کی کوشش کی۔ آخر میں انہوں نے ساحر لدھیانوی کے گیت کے اس بول کے ساتھ کہ۔ نہ منھ چھپا کے جیئو اور نہ سر جھکا کے جیئو گاتے ہوئے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ خواتین کو سر اٹھا کے جینے دیا جائے!سرکاری وکیل کے دلائل ختم ہونے کے بعد ٹیچروں کی طرف سے ایڈوکیٹ آر وی وینکٹ رمانی اسی طرح گورنمینٹ پی یو کالج پرنسپال اور لیکچرر کی طرف سے ایڈوکیٹ ناگانند نے اپنی بات رکھی۔ آخر میں بینچ نے کرناٹک اسٹیٹ مینارٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز مینجمنٹ فیڈریشن کی طرف سے دائر رٹ عرضی کو نمٹا تے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل کا بیان ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اقلیتی اداروں میں سرکار مداخلت نہیں کر رہی ہے۔ عدالت کی کاروائی کو کل بدھ دوپہر ڈھائی بجے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے بتایا کہ وہ عبوری حکم کی وضاحت طلب کرنے والی درخواستوں پر کل سماعت کرے گا۔
0 Comments