بزم شیخ الاسلام "مدنی دارالمطالعہ" کا عظیم الشان اختتامی اجلاس عام، مفتی ابوالقاسم نعمانی و دیگر اساتذہ نے کی طلبہ کی قیمتی نصیحتیں۔
دیوبند: دارالعلوم دیوبند کی فعال و متحرک انجمن، "بزم شیخ الاسلام مدنی دارالمطالعہ" کا اختتامی اجلاس عام دارالحدیث کے وسیع و عریض ہال میں پورے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ اجلاس میں بہ طور مہمان خصوصی سالارِ قافلہ نمونۂ اسلاف حضرت اقدس مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند نے شرکت فرمائی اور اپنے خصوصی خطاب میں مدنی دارالمطالعہ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ : "مدنی دارالمطالعہ" نہایت قدیم انجمن ہے ، اس کی بنیاد 1367ھ میں آزادی سے کچھ ماہ قبل ہوئی، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو میری اور مدنی دارالمطالعہ کی عمر تقریباً ایک ہے؛ بل کہ میں مدنی دارالمطالعہ سے ایک سال بڑا ہوں" پھر آپ نے انجمنوں کی افادیت پر زور ڈالتے ہوئے فرمایا کہ : انجمنیں: تقریری و تحریری صلاحیتوں میں جلا پیدا کرتی ہیں، اس لیے درسی پابندی کے ساتھ ان میں بھی شرکت کرنی چاہیے۔" آپ نے اس موقع پر مولوی احمد شجاع بجنوری، سابق ناظم اعلیٰ مدنی دار المطالعہ کی تصنیف کردہ کتاب: "مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوریؒ اور مدنی دار المطالعہ سے آپ کا تعلق" کا رسمِ اجرا بھی کیا۔
اجلاس کی سرپرستی انجمن ہذا کے سرپرست محترم حضرت اقدس مفتی محمد راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ استاذِ حدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند فرمارہے تھے ، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ : "مدنی دارالمطالعہ" شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کی یادگار ہے ، انھیں کے ایما واشارے پر اس انجمن کا قیام عمل میں آیا ، اس میں اکابر کا خلوص شامل ہے،جب تک دارالعلوم ہے ان شاءاللہ یہ بھی باقی رہے گی اور دارالعلوم تا قیام قیامت باقی رہے گا، جو اسے مٹانے کا کام کریں گے وہ خود مٹ جائیں گے، مگر دارالعلوم اسی طرح دینِ اسلام کی خدمت انجام دیتا رہے گا۔ ان شاءاللہ۔"
اس اجلاس کی صدارت حضرت اقدس مفتی عبداللہ معروفی دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند فرمارہے تھے ، آپ نے اپنے صدارتی خطاب میں انجمن ہذا کے سابق سرپرستِ محترم امیر الہند حضرت اقدس مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نور اللہ مرقدہ کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ : "یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اراکین مدنی دارالمطالعہ اسی روش پر چل رہے جس کو حضرت قاری صاحب پسند فرماتے تھے، یقیناً آج حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کی روح خوش ہوگئی ہوگی، اراکین نے ڈرامے کے بجائے جس علمی انداز میں مکالمہ پیش کیا وہ قابل مبارکباد ہے۔ " پھر آپ نے بہ طور خاص حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کی حیات اور مدنی دارالمطالعہ سے آپ کے تعلق پر پیش کیے جانے والے مدنی دارالمطالعہ کے خصوصی پروگرام "آواز کا سفر" کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ : "طلبہ نے بہت خوب صورت انداز میں اپنے محسن و مربی حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ سے اپنے والہانہ تعلق کا اظہار کیا ہے اور نہایت دل کش پیرائے میں اپنے محسن و مربی کو یاد کیا ہے، اس کے لیے ان کو سراہا جانا چاہیے۔ "
اجلاس میں "مذہبی رواداری : آداب و حدود" کے موضوع پر ایک دل چسپ علمی مکالمہ بھی پیش کیا گیا، مکالمے کے بعد اس موضوع پر حضرت اقدس مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی دامت برکاتہم العالیہ، استاذ تفسیر و فقہ دارالعلوم دیوبند نے بصیرت افروز اور نہایت معلومات افزا خطاب فرمایا۔ جس میں تاریخی حوالہ جات سے یہ ثابت کیا کہ: "اسلام امن و سلامتی کا علَم بردار ہے اور کسی پر زور زبردستی کو پسند نہیں کرتا؛ لیکن اگر کوئی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرے تو اس کو پوری طاقت و قوت کے ساتھ جواب دینا چاہیے. "
نیز دورانِ خطاب آپ نے فرمایا کہ: "جو لوگ اسلام پر مذہبی رواداری کے حوالے سے طعن و تشنیع کرتے ہیں اور اسلام کو تشدد پسند مذہب بتاتے ہیں، خود ان کے مذہب کی کتابیں آپسی بھید بھاؤ، طبقاتی اونچ نیچ اور تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔"
آپ نے اپنے خطاب میں انجمنوں کی اہمیت و افادیت پر بھی خاصی روشنی ڈالی۔
حضرت والا کے بعد سابق سرپرستِ محترم امیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نور اللہ مرقدہ کے قابلِ قدر فرزند حضرت اقدس مفتی محمد عفان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم العالیہ نے سامعین سے مختصر؛ مگر جامع خطاب فرمایا اور آپ نے والد صاحب نور اللہ مرقدہ کو یاد فرماتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں فرمایا کہ: "حضرت والد ماجد نور اللہ مرقدہ مدنی دار المطالعہ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اور اس کے ہر پروگرام میں شریک ہوتے تھے، کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا جس میں سرپرستی یا صدارت نہ فرماتے ہوں۔ غالبا یہ پہلا موقع ہے جب حضرت والد ماجد نور اللہ مرقدہ کے بغیر یہ پروگرام ہو رہا ہے۔ اللّہ تعالیٰ والد ماجد کے درجات بلند فرمائے اور اکابر کی عظمتوں کو ہمارے دلوں میں راسخ فرمائے۔ آمین۔"
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ۔ نے فرمایا کہ: "طلبہ کو خوب محنت کرکے علمِ دین میں پختگی حاصل کرنی چاہیے۔"
اجلاس کا آغاز، حضرت مولانا قاری محمد اقرار صاحب بجنوری دامت برکاتہم العالیہ استاذِ شعبہء تجوید و قراءت دار العلوم دیوبند کی مسحور کن تلاوت سے ہوا؛ جب کہ مولوی عبد الحکیم سدھارتھ نگری متعلم دار العلوم دیوبند نے دل کش لب و لہجے میں نعت نبی ﷺ سے سامعین کو محظوظ کیا۔
مولوی محمد عمار ہردوئی نے "تحریکِ صدارت"؛ جب کہ مولوی سعید احمد گونڈوی نے "تائیدِ صدارت" کے فرائض انجام دیے۔
اجلاس میں مدنی دار المطالعہ کی سال بھر کی کارکردگی بھی پیش کی گئی؛ چناں چہ مولوی محمد ندیم بستوی، مولوی عبد الحکیم سدھارتھ نگری اور مولوی معاذ الرحمان اتراکھنڈ نے بالترتیب "رپورٹ لائبریری"، " رپورٹ صحافت" اور "رپورٹ خطابت" پیش کی۔ اور مولوی مدثر نور الہ آبادی نے "خلاصہ القرآن: ایک مطالعہ" کے عنوان پر "کوئز" پیش کیا۔ جس میں حضرت مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمہ اللہ کی کتاب: "خلاصہ القرآن" سے چند سوالات کیے گئے اور صحیح جواب دینے والے احباب کو تقریباً آٹھ سو(۸۰۰) صفحات پر مشتمل "سیرت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ" نامی کتاب (از: مولانا محمد نافع صاحب رحمہ اللہ) انعام میں دی گئی۔
اجلاس میں تین اہم عنوانات پر ایک تقریری مسابقہ بھی ہوا، جس میں "عِفَّت و عصمت کی اہمیت شریعت اسلامیہ کی نظر میں" کے عنوان پر مولوی عبد الحفیظ ہردواری نے اور "اعتدال و میانہ روی کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں" کے عنوان پر مولوی محمد عمر پانی پتی نے تقریر پیش کی؛ جب کہ "حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نور اللہ مرقدہ کی قومی، ملی و علمی خدمات" کے عنوان پر مولوی ابو طلحہ بہرائچی نے تقریر پیش کی۔
اس مسابقے میں حکمیت کے فرائض جامعہ کے تین مؤقر اساتذہء کرام: حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم العالیہ، حضرت مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت مولانا مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی دربھنگوی دامت برکاتہم العالیہ نے انجام دیے۔ واضح رہے کہ یہ تینوں مساہِم، تین مسابَقاتی مراحل سے گزر کر، "مسابقہء دار الحدیث" کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
دار الحدیث کے مسابقے میں مولوی ابو طلحہ بہرائچی اور مولوی عبد الحفیظ ہردواری نے بالترتیب اول دوم پوزیشن حاصل کی۔
مولوی احمد دربھنگوی نے اساتذہء کرام اور مہمانانِ عظام کی خدمت میں "خطبہ استقبالیہ" پیش کیا
اجلاس میں "مذہبی رواداری: آداب و حدود" کے عنوان پر ایک دل چسپ علمی مکالمہ بھی پیش کیا گیا۔ جس میں مذہبی رواداری سے متعلق پائی جانے والی بے اعتدالیوں کو واضح کرکے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے آداب و حدود پر مفصل روشنی ڈالی گئی۔ جس سے سامعین خوب محظوظ ہوئے۔
مکالمہ پیش کنندگان میں: مولوی محمد اسامہ ہردوئی، مولوی محمد ارشد کبیر نگری، مولوی محمد عامر بجنوری، مولوی محمد دلشاد دربھنگوی، مولوی محمد طالب جے پوری، مولوی محمد ناظم مظفر نگری، مولوی نور الاسلام کٹیہاری، اور مولوی حسان عمر سنت کبیر نگری شامل رہے۔
اجلاس میں مدنی دار المطالعہ کا سب سے مقبول پروگرام " آواز کا سفر"، بہ عنوان: "امیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری علیہ الرحمہ کا سفر زندگی کی شاہ راہ پر" بھی پیش کیا گیا۔ جس میں آپ کی کثیر الجہات خدمات اور مدنی دار المطالعہ سے آپ کے خصوصی تعلق کو نہایت دل کش انداز میں پیش کیا گیا۔ جسے سامعین نے خوب پسند کیا۔
یہ پروگرام مولوی محمد لقمان سنبھلی، مولوی اسامہ ہردوئی، مولوی معین گونڈوی اور مولوی عبد الحکیم سدھارتھ نگری نے پیش کیا۔
اجلاس کے اخیر میں حضرت صدر محترم کے مبارک ہاتھوں سے "سالانہ مسابقہء تقریر و مقالہ نویسی" کے مساہمین کو بہ شکلِ کتب گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔ مجموعی انعامات کی قیمت: تقریباً پچانوے ہزار(95000) روپے رہی۔
اجلاس کی نظامت کے فرائض: مولوی محمد خبیب میرٹھی اور مولوی محمد معین گونڈوی نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔ اور اجلاس کا اختتام حضرت صدر محترم کی دعا پر ہوا۔
دعا کے بعد مولوی محمد لقمان سنبھلی نے بزم میں تشریف آوری پر اساتذہء کرام، مہمانانِ عظام اور تمام سامعین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
سمیر چودھری
0 Comments