Latest News

دوسرے مرحلہ میں خواتین میں نظر آیا زبردست جوش و خروش، امیدوار نہیں ہیں اپنی جیت کے تئیں مکمل مطمئن، پردہ اور ہندوتوکے آگے ترقیاتی امورغائب۔

دوسرے مرحلہ میں خواتین میں نظر آیا زبردست جوش و خروش، امیدوار نہیں ہیں اپنی جیت کے تئیں مکمل مطمئن، پردہ اور ہندوتوکے آگے ترقیاتی امورغائب۔
دیوبند: (سمیر چودھری)
14 فروری کو دوسرے مرحلہ کے تحت ہوئی ووٹنگ کے دوران خواتین کا جوش و جذبہ قابل دید تھا،جہاں مسلم خواتین نے تحفظ اور تازہ معاملہ حجاب کو لیکر جم کر ووٹنگ کی وہیں دوسری طرف ہندوتو اور غنڈہ گردی جیسے مدعے حاوی دکھائی دیئے، دوسرے مرحلہ میں بھی بی جے پی اور اکھلیش یادو ووٹروں کی پہلی پسند ر ہے، حالانکہ اس مرتبہ بی جے پی کی یوپی میں زمین کھسکنے کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ مسلسل دیئے جارہے ہندوتو کے متعلق اشتعال انگیز بیانات کا ان کے ووٹروں میں اثر دکھائی دیا اور ان کے ووٹروں نے ہندوتو اور غنڈہ گردی کے خاتمہ کے نام پر ووٹ دیا۔
مسلم علاقوں میں جم کر اکھلیش یادو کی سائیکل چلی اور مسلم خواتین نے تحفظ اور حجاب جیسے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ کئے۔ حالانکہ درمیان میں لوگ ترقی، تعلیم،صحت اوربنیادی مسائل کی باتیں کرتے دکھائی ضرور دیئے لیکن اجتماعی طور پر موازنہ کیا جائے تو ترقیاتی امور اس مرتبہ بھی الیکشن سے غائب رہے۔
ووٹ ڈال کر نکلی فریحہ عثمانی نے کہاکہ پردہ ہماری شناخت ہے اور ہم اپنی شناخت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔وہیں عارفہ، شیلی خان، عظمیٰ اور روبی نے بھی حجاب پر اپنی رائے رکھی، انہوں نے حجاب کو بلاوجہ طول دینا بتایا اور کہاکہ ان کا ووٹ ترقی کے لئے تو تھا لیکن مذہبی شناخت پر حملہ کرنے والوں کے بھی خلاف تھا۔ 

ادھر انیتا سنگھل، اروشی، تانیہ اور سمن سمیت دیگر خواتین نے کہاکہ ان کا ووٹ غنڈہ گردی کے خلاف اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والی حکومت کے لئے تھا۔ وہیں کئی لوگوں نے جہاں ترقی کے حوالہ سے بات کی تو کچھ نوجوان ہندوتو کے لئے بھی کافی فعال دکھائی دیئے۔ بہر حال اس مرتبہ خواتین میں زبردست خوش و خروش تھا اب 10 مارچ کے نتیجے ہی بتائینگے کہ آخر جیت کس کی ہوگی۔ 
سہارنپور میں جیت کی راہ پیچیدہ۔
ادھر سہارنپور کی ساتوں سیٹوں پر ووٹنگ کے بعد جہاں کارکنان میں خوشی کا ماحول ہے، وہیں امیدواروں کی خاموشی ان کے فکرمندی اور ڈر کو ظاہر کررہی ہے۔ ضلع سہارنپور میں کل 71.41 فیصدی ووٹ پڑے،الگ الگ سیٹوں کے اعداد و شمار پر روشنی ڈالی تونکوڑ سیٹ پر سب سے زیادہ جبکہ سہارنپور شہر سیٹ پر سب سے کم ووٹنگ ہوئی۔
نکوڑ اسمبلی سیٹ پچھلی مرتبہ کے طرح اس مرتبہ بھی ووٹنگ فیصد میں آگے رہی یہاں 76.32 فیصد ووٹ پڑے جبکہ بہٹ میں 75.49 ووٹنگ ہوئی،سہارنپور دیہات میں 72.38 فیصد ،رامپور منیہاران میں 71.72 گنگوہ میں 70 فیصدی،دیوبند میں 69.32 فیصدی جبکہ سہارنپور شہر سیٹ پر 65.89 فیصدی ووٹنگ ہوئی۔ ووٹنگ کے بعد کارکنان اعداد و شمار فٹ کرنے میں لگ گئے ہیں، ہر امیدوار کے حامی اپنے امیدوار کی جیت کا دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن امیدواروں کی خاموشی ان کے فکرمندی اور خوف کو صاف ظاہر کررہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مرتبہ ضلع سہارنپور میں بی جے پی کی رفتار میں معمولی کمی دکھائی دی وہیں مسلم علاقہ میں سائیکل چلی تو کہیں ہاتھی اور اویسی کی پتنگ بھی اڑتی دکھائی دی، یوپی میں وجود کی لڑائی لڑ رہی کانگریس کہیں نظر نہیں آئی۔ اب یہ تو نتیجے ہی بتائینگے کس کی قسمت چمکے گی لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے دیوبند سمیت سبھی سیٹوں پر مقابلہ آسان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ امیدوار وں کے حامی بھلے ہی کتنے ہی بڑے دعوے کیوں نہ کریں امیدوار اپنی جیت کے تئیں مکمل طورپر مطمئن نہیں ہیں۔ بی ایس پی کا گڑھ سمجھے جانے والے سہارنپور میں عمران مسعود کی انٹری سے سماجوادی پارٹی کو ضرور فائدہ پہنچا ہے۔

DT Network

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر