تبلیغی مرکزمیں تالا بندی: معصوم مرادآبادی
نئی دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی مرکزمیں تالا بندی کا معاملہ مرکز اور دہلی سرکار کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔ مرکز میں تالا لگے ہوئے دوسال کا عرصہ بیتچکاہے اور فی الحال اس کے کھلنے کے آثار نظر نہیں آتے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس معاملے میں سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔حال ہی میں مرکزی حکومت نے عدالت میں تبلیغی مرکز کومکمل طورپر کھولے جانے کی مخالفت کیہے۔جبکہ پچھلی سماعت کے دوران اس نے دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہدایات کے مطابق مرکز کو کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مذہبی آزادی کے بنیادی حق میں رخنہ اندازی کررہی ہے اورعوام کوعبادت وریاضت کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جب راجدھانی دہلی میں کووڈ کے دوران نافذ کی گئی بیشتر پابندیاں اٹھالی گئی ہیں تو تبلیغی مرکز کو کھولنے میں کیا قباحت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں گزشتہ۴/ مارچ کو مرکزی حکومت کے وکیل نے تبلیغی مرکز کو پوری طرح کھولے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے اتنا ضرور کہا کہ آئندہ مذہبی مواقع کے پیش نظر چندلوگوں کو وہاں جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یعنی شب برات اور رمضان کے موقع پر مرکز میں واقع بنگلے والی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی مشروط اجازت ملسکتی ہے، جو پہلے بھی مخصوص لوگوں کو دی گئی تھی۔یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب کووڈ سے متعلق بندشوں کے خاتمہ کے بعد دہلی میں تمام عبادت گاہوں کو کھولا جاچکا ہے اور وہاں عبادت کے لیے تعداد کاکی قید بھی ہٹادی گئیہے تو پھر کس بنیاد پر مرکز کو کھولنے کی مخالفت کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ دہلی وقف بورڈ نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے شب برات اور رمضان کے دوران عبادت کی اجازت طلب کی ہے۔وقف بورڈ کے وکیل نے دلیل دی ہے کہ گزشتہ سال شب برات اور رمضان کے دوران ہائی کورٹ نے مسجد میں نماز کی اجازت دی تھی۔
اس مقدمہ کی سماعت کررہے جسٹس منوج کمار اوہری کے روبرو سرکاری وکیل رجت کمار نائر نے نماز کی اجازت دئیے جانے کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اس معاملہ کی جائیدادہے اور عرضی گزارکو اسے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس پر وقف بورڈ کے وکیل نے سوال کیا کہ اگر یہ حق انھیں نہیں ہے تو پھر کس کو ہے؟وقف بورڈ کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ کووڈ ۹۱ کی موجودہ شکل اومیکرون اتنی مہلک اورخطرناک نہیں ہے۔ حالات بہتر ہوئے ہیں اور سبھی عدالتیں، اسکول، کلب اور بازار کھول دئیے گئے ہیں، لہٰذا وقف کی اس جائیداد کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مرکز نے عدالت میں جو موقف پیش کیا ہے، اس کی رو سے مرکز کو جائے واردات کے طورپر نشان زد کیا گیا ہے، جو سراسر غلط اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔مرکزی حکومت کے اسی اڑیل رویے کا نتیجہ ہے کہ وہ مقام جہاں برسہا برس ملکی اور غیرملکی جماعتوں کی آمدورفت رہی، اب ایک ویرانے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آس پاس کے دوکاندارہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور دوبارہ ان رونقوں کے لوٹنے کے منتظر ہیں، جن سے ان کی روزی روٹی چلتی تھی۔
سبھی جانتے ہیں کہ بستی حضرت نظام الدین ؒ، جہاں سلطان الہند کی درگاہ کی وجہ سے مرجع خلائق رہی ہے، وہیں گزشتہ صدی کی ابتداء میں یہاں سے شروع ہوئی مولانا محمد الیاس کی تبلیغی تحریک نے عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ تحریک دراصل شدھی تحریک کے ردعمل میں وجود میں آئی تھی، جس کے نتیجے میں کم علم اور نا خواندہ مسلمانوں کو مرتد بنانے کی مہم شروع ہوئی تھی۔ مولانا محمدالیاس اور ان کے ساتھیوں نے اس خطرے کو محسوس کیا اور اس کا توڑ کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا اولین دائرہ کار میوات کا علاقہ تھا، جہاں کے مسلمان دین سے دور ہوگئے تھے۔یہ بنیادی طورپر’نام کے مسلمانوں کو کام کا مسلمان‘بنانے کی تحریک تھی۔ یعنی اس کا مقصددین وشریعت سے دور مسلمانوں کو واپس اپنے مذہبی فرائض کی طرف واپس لاکر ان کی عاقبت کو درست کرنا تھا۔ اس تحریک کا دائرہ کار چونکہ صرف اور صرف مسلمانوں کے درمیان تھا، اس لیے حکومتوں نے کبھی اس کے کام میں مداخلت نہیں کی۔ کسی لٹریچر اورتحریری سلسلہ کے بغیر یہ تحریک آگے بڑھتی رہی، یہاں تک کہ اس کا دائرہ دنیا کے دوسوملکوں تک دراز ہوگیا۔ اس میں ہرخطے کے ممالک شامل تھے۔لیکن اب جب سے موجودہ حکومت نے اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ سرگرمیوں کا قافیہ تنگ کرنے کی ٹھانی ہے، یہاں اسلام کا نام لینا دشوار ہوتا چلا جارہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جب تبلیغی جماعت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے حکومت کو پریشانی لاحق ہوئی اور مستقبل کے اندیشوں نے اسے گھیرا تو تبلیغی مرکز میں خفیہ محکمے کے افراد کی آمدورفت بڑھادی گئی تاکہ وہ اندر کی خبر لاسکیں، مگر جب حکومت کو یہ اطلاع ملی کہ مرکز میں جو تقریریں ہوتی ہیں، ان میں زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی ہی باتیں ہوتی ہیں، لہٰذا اس کے درمیان رہنے والوں کو اس جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس طرح ملک وبیرون ملک تبلیغی سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہیں۔لیکن دوسال پہلے جب دنیا میں کووڈ کی وبا شروع ہوئی تواچانک تبلیغی مرکز اس کے محور میں آگیا۔ وبائی دور میں وہاں پھنسے ہوئے ملکی اور غیرملکی لوگوں کے مسئلہکو اس حد تک ہوا دی گئی کہ تبلیغی جماعت سبھی برائیوں کی جڑ قرار دے دی گئی۔ مرکزی اور صوبائی سرکار نے اس موقع پر جس انداز میں مرکز کو نشانہ بنایا، اس سے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ حکومت اس کو ٹھکانے لگانے کی تاک میں بیٹھی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وبا پھیلنے کے دوران مرکز کے ذمہ داروں نے اپنی غیرذمہ داری کا ثبوت دے کر تمام ہی مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی کردیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مرکز میں پھنسے ہوئے لوگوں کا معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد گودی میڈیا نے آسمان سرپراٹھالیا۔یوں محسوس ہوا کہ کووڈ ۹۱ کا وائرس چین سے نہیں تبلیغی مرکز سے نکلا ہے اور تبلیغی جماعت اس کی اکلوتی مجرم ہے۔اس موقع پر داڑھی اور ٹوپی والے مسلمانوں کا نکلنا بڑھنا مشکل ہوگیا اور ان کے خلاف زہر اگلا جانے لگا۔ جگہ جگہ تبلیغی جماعت میں نکلے ہوئے لوگوں کی گھیرا بندی کی گئی۔ انھیں اور ان کو پناہ دینے والوں کوسنگین مقدمات قایم کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔اب جبکہ بیشتر مقامات پر ان لوگوں کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر بری کردیا ہے اور حکومت کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کو بے بنیاد قرادیا جاچکاہے، لیکن راجدھانی دہلی میں مرکز میں آج بھی تالا پڑا ہوا ہے۔مرکزی حکومت نے اپنے عدالتی بیان میں یہ عجیب وغریب بات کہی ہے کہ مرکز میں چونکہ جرم سرزد ہوا، اس لیے اسے نہیں کھولا جائے گا۔کیا واقعی مرکز میں بھیڑ جمع کرنا اتنا بڑا جرم تھا کہ تبلیغی مرکز کو ہمیشہ کے لیے بند کیا جاسکتا ہے۔حالانکہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ وبائی دور میں تبلیغی مرکز کے اندر کووڈ سے کوئی ایک موت بھی واقع نہیں ہوئی اور سبھی لوگوں کو وہاں سے صحیح سلامت برآمد کیا گیا، لیکن اس کے باوجود مرکزی حکومت نے اس تالا بندی کو اپنے لیے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔
0 Comments