Latest News

مسلمان ہمت و حکمت اور مومنانہ فراست کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں، مرکز تحفظ اسلام ہند کا پانچ روزہ حالات حاضرہ کانفرنس اختتام پذیر

مسلمان ہمت و حکمت اور مومنانہ فراست کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں، مرکز تحفظ اسلام ہند کا پانچ روزہ حالات حاضرہ کانفرنس اختتام پذیر۔ مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی، مولانا خالد بیگ ندوی، مولانا ازہر مدنی، مفتی یاسر ندیم الواجدی کے خطابات۔
بنگلور (پریس ریلیز): ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند نے گزشتہ دنوں پانچ روزہ آن لائن حالات حاضرہ کانفرنس منعقد کیا۔ جس کی پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا خالد بیگ ندوی صاحب نے فرمایا کہ اس وقت ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے ہیں۔ ایک طرف جہاں مسلمانوں کی مآب لنچنگ کی جاتی ہے تو دوسری طرف دھرم سنسد کے نام سے مسلمانوں کے قتل عام کی تیاری کی جارہی ہے۔ لیکن جو سازشیں ناعاقبت اندیش لوگ کر رہے ہیں، ہمیں ان سازشوں سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اسلام کو مٹانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، اور عنقریب وہ دن آئے گا جب پوری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائے گا۔ لہٰذا ہمیں دھرم سنسد، نئی تعلیمی پالیسی اور دیگر سازشوں سے گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور اپنے بچوں کے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم سے پہلے اور ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دینے کی فکر کریں۔
کانفرنس کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے فقیہ العصر حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ملک کے حالات مسلسل خراب ہوتے جارہے ہیں۔ سماجی، معاشی، تعلیمی ہر میدان میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ملک میں اس طرح زہر بو دیا گیا ہے کہ کہیں مسلمانوں کی نسل کشی تو کہیں سوریہ نمسکار اور دیگر طریقوں سے مسلمانوں کے دین و ایمان پر حملہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ موجودہ حالات میں صبر و استقلال کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے دین پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی اسلام کے خلاف دنیا کی باطل طاقتوں نے خوب زور لگایا تھا لیکن نہ تو وہ اسلام کو ختم کرسکے اور نہ ہی مسلمانوں کو مٹا سکے۔
کانفرنس کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے نبیرہئ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ازہر مدنی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔جس ملک کو ہمارے اکابرین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزاد کرایا تھا۔ اس ملک میں ہر آئے دن مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ لیکن ظالم حکمرانوں کا مسلط ہونا ہماری نافرمانیوں کی سزا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیکہ جب لوگ میری اطاعت کرتے ہیں تو میں حکمرانوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کرتے ہیں تو حکمرانوں کے دلوں کو غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو (قوم کو) سخت ایذائیں دیتے ہیں۔ لہٰذا ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ اس کی بارگاہ میں سچی اور پکی توبہ کریں۔ اور دین و ایمان پر مضبوطی کے ساتھ جمع رہنا چاہیے۔
کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب نے فرمایا کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے، ہر سمت سے مختلف فتنوں کی یلغار ہے، آج انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے الحاد اور لبرلزم کی شورشیں عروج پر ہیں، اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہورہے ہیں، مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے اسلام بیزار کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور نئی نسل کو راہ حق سے برگشہ کرنے اور ملت کے متاع دین و ایمان پر ڈاکے ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ فتنہئ الحاد سے اسلام اور اہل اسلام کا واسطہ کوئی نیا نہیں، جب سے اسلام آیا تب سے اسلام میں تحریف کرکے لوگوں کو اسلام سے دُور کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اُسی زمانے سے ملحدین نے دینی احکام کو کھیل اور مذاق سمجھ کر تاویلاتِ باطلہ کا نشانہ بنائے رکھا۔ اور مسلمانوں کو اُن کے دین سے کاٹنے اور دُور کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن علمائے اسلام اپنی شرعی اور دینی ذمہ داری کی بدولت ان فتنوں کا تعاقب کرتے رہے اور آج ضرورت ہیکہ مزید مضبوطی کے ساتھ علماء کرام کو اس فتنہ کا مقابلہ کرنا چاہئے اور امت کے دین و ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
حالات حاضرہ کانفرنس کی پانچویں اور اختتامی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اور مسلمان مختلف قسم کے مصائب اور مشکلات سے دور چار ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ مسلمانوں کی مآب لنچنگ کی جارہی ہے اور مسئلہ یہ بھی نہیں کہ سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمان پیچھے ہے، بلکہ اصل مسئلہ اس ملک میں مسلمانوں کے وجود کے تحفظ کا ہے اور انکے دین و ایمان کی بقاء کا ہے، شریعت کی حفاظت کا ہے، ذہنی، فکری اور عملی ارتداد سے نسلوں کو بچانے کا ہے۔ اس وقت ملک کے حالات اس قدر نازک ہیں کہ ایک طرف مآب لنچنگ تو دوسری طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری تو تیسری طرف نفرت کو اس قدر عام کردیا گیا ہیکہ اب تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ یہ نفرت کی فضاء نہ صرف مسلمانوں کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ پورے ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک کے موجودہ حالات سے اکثر مسلمانوں کے عزم و حوصلے پست ہوتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن یاد رکھو اللہ کی ذات سے ناامیدی کفر ہے۔ حالات سے گھبرانا مسلمانوں کی شان اور پہچان نہیں۔ حقیقی مومن وہی ہے جو نازک سے نازک ترین حالات کے باوجود اپنے دین و ایمان پر قائم رہتے ہوئے حالات کا ہمت و حوصلہ کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کرے اور اسلام کا بول بالا کرے۔
قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر تمام اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا، اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور سرپرست مرکز مولانا رحمانی کی دعا سے یہ پانچ روزہ حالات حاضرہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر