Latest News

اُردو کے ممتاز شاعر، دانشور اور سینئر صحافی فرہادؔ زیدی انتقال کر گئے۔

اُردو کے ممتاز شاعر، دانشور اور سینئر صحافی فرہادؔ زیدی انتقال کر گئے۔
ممبئی:(ندیم صدیقی) سرحد پارسے بتاخیر ملنے والی اطلاع کے مطابق اُردو کے ممتاز شاعر، دانشور اور سینئر صحافی (91سالہ) فرہاد زیدی گزشتہ جمعے (گیارہ مارچ)کو کراچی(پاکستان) میں انتقال کر گئے۔ فرہاد زیدی1931 میں غیر منقسم ہندستان کے شیراز(جونپور) میں پیدا ہوئے تھے ان کے والد بسلسلہ ملازمت اورنگ آباد (دکن)میں تھے اسی سبب فرہاد زیدی کے اوائل عمری کے ایام اورنگ آباد میں گزرے۔ وہ فطری طور پر ذہین شخص تھے، فرہاد زیدی اپنے کرداری تشخص میں شرافت اوروقار کا ایک مثالی نمونہ تھے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں صحافتی آزادی اور جمہوری قدروں کے علم بردار رہے۔
انہوں نے پاکستان میں اپنے وقت کے نہایت مؤقرروزنامہ مشرق (لاہور) میں(یہ 1958 کے آس پاس کا زمانہ تھا) کام کیا اور پھر انگریزی اخبار ’ دی مسلم‘(اسلام آباد) سے وابستہ ہوگئے، یہ اطلاعات دیتے ہوئے ممتا ز افسانہ نگار مرزا حامد بیگ نے یہ بھی بتایا کہ اُسی زمانے میں فرہاد زیدی نے اسلام آباد سے ایک نہایت معیاری ادبی جریدہ بھی نکالا تھا( بیگ صاحب اس ادبی پرچے کا نام حافظے کی کمزوری کے سبب نہیں بتا سکے)۔ بیگ صاحب کی گفتگو سے یہ بھی پتہ چلا کہ فرہادؔ زیدی صاحب نے اپنے اس ادبی پرچے میں اُس وقت کے ممتاز اہل ِادب کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ بقول بیگ صاحب ایک بار مشہور شاعر و ناقد سلیم احمد کے انٹروِیو میں فرہاد زیدی نے سوال کیا: ڈاکٹر سید عبد اللہ کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں۔ سلیم احمد کا جواب تھا : ان کی تو قربانی بھی جائز نہیں ہے۔(بیگ صاحب نے صراحت کی کہ سید عبد اللہ کی سماعت جاتی رہی تھی اور وہ بھینگے بھی تھے یعنی ان کی ایک آنکھ اگر مشرق تو دوسری مغرب کی طرف ہوتی تھی۔) فرہادؔ زیدی نے پیپلز پارٹی کے اخبار ’ حرؔیت‘ کی بھی ادارت کی مگر وہ انتہائی بے نیاز قسم کے’’ شریف آدمی‘‘تھے۔ انہوں نے فوجی آمروں کے زمانے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ 
فرہاد زیدی پاکستان ٹیلیویژن کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے تھے۔ وہ اسلام آباد سے کراچی منتقل ہو گئے تھے، ان کی بے نیازی اپنی جگہ مگر حیرت اور افسوس کی جا ہے کہ کراچی کے اہلِ ادب اور صحافی بھی ان سے بے خبر سےتھے جبکہ وہ جس کالونی میں قیام پذیر تھے وہ کراچی میں متمول اور معزز اشخاص کا علاقہ (PECHS) سمجھا جاتا ہے قوسین میں جو مخفف نام ہے وہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق پاکستان ایمپلائنمنٹ کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ کوئی پندرہ بیس برس اُدھر روزنامہ انقلاب(ممبئی) کے مدیر فضیل جعفری مرحوم نے ایک پاکستانی ادبی پرچہ دِکھایا تھا جس میں فرہاد زیدی کی ایک طویل نظم ’’شریف آدمی‘‘ شائع ہوئی تھی، سچ یہ ہے کہ وہ نظم ہی تھی جس کے ذریعے فرہاد زیدی سے ہم متعارف ہوئے تھے۔ فضیل جعفری (مرحوم) ہی سے فرہاد زیدی کا خاندانی نام سید اولاد حیدر بھی ہم نے سنا تھا اور انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ پاکستانی جرنلسٹوں کی ممتاز ترین انجمن یعنی APNS آل پاکستان نیوز پیپیرز سوسائٹی‘‘ کے صدر نشین اور پاکستان آرٹس کونسل کی سربراہ بھی رہے۔ ان کی سناؤنی سے افسوس تو ہوا مگر صد افسوس اس کا ہے کہ پاکستان کے بڑے اخبارات جن میں روزنامہ جنگ، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ دُنیا میں ہم نے ان کی ’’ خبر‘‘ تلاش کی مگر۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہم جو شہرت اور نام وَری کےلیے مَرے جارہے ہیں یہ بات باعث ِعبرت ہے کہ ایسے بڑے بڑے اخبارات کے سابق مدیر اور پاکستان ٹیلی ویژن کی اعلیٰ ترین عہدے دارکی کسی اُردو اخبار نے ’خبر‘ کو نمایاں نہیں کیا جبکہ یہ اُن کا حق تھا۔ ہم لوگ اپنے نام کے ساتھ’سابق‘ لکھنے یا چھپوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں سو پتہ چلا کہ ہمارے معاشرے میں ’سابق ایڈیٹر‘ کی کیا قدرو قیمت ہو سکتی ہے۔ 
فرہاد زیدی کی نظم ہر چند کہ بیس برس اُدھر پڑھی اور اخبار میں چھاپی بھی تھی، جس کا تاثر اب تک ذہن و قلب میں باقی ہے اور ہمارے خیال سے کوئی بھی انسانی درد مند فرد جس نے’ شریف آدمی‘‘ پڑھی ہو وہ فرہاد زیدی کو بھول نہیں سکتا۔ اس نظم کے چند مصرع ہم خبر کے آخر میں پیش کر رہے ہیں۔ فرہاد زیدی کے پسماندگان میں بیوہ مسرت جبین، بیٹے حسن زیدی اور علی فیصل زیدی ہیں۔ اول الذکر صاحبزادے حسین زیدی روزنامہ ڈان کے میگزین ایڈیٹر ہیں۔ سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری نے فرہاد زیدی کے پسماندگان کے نام تعزیتی پیغام میں شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر