Latest News

ملک کے حالات مشکل ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں فاسشٹ طاقتیں ملک کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیںفرقہ واریت اور نفرت کا جواب محبت اور ہم آہنگی سے دیا جائےجمعیة علماءہند مجلس منتظمہ کے اجلاس کی نشست اول میں مفتی ابوالقاسم نعمانی اورمولانا محمود مدنی کا خطاب


ملک کے حالات مشکل ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، فاسشٹ طاقتیں ملک کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں: مولانا محمود مدنی کا خطاب، دیوبند اجلاس میں فرقہ پرستی اور اسلامو فوبیا کے خلاف جمعیۃ علماء کا ایک ہزار سدبھاؤنا سنسد کرنے کا فیصلہ۔ اجلاس جاری۔
دیوبند: (سمیر چودھری)  جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس منتظمہ کا اہم اجلا س دیوبند کے عثمان نگر (عید گا ہ میدان) میں آج صبح شروع ہوا، جس میں ملک بھر سے جمعیۃ علماء ہند کے تقریباََ دو ہزار اراکین ومشاہیر نے شرکت کی، اس کی صدارت مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے کی۔
اجلاس کی پہلی نشست میں ملک میں بڑھتی نفرت انگیزی کی روک تھام، اسلامو فوبیا کے واقعات اور مسلم اور غیر مسلم کی مشترکہ منچ ”جمعیۃ سدبھاؤنا منچ کے استحکام پر تفصیل سے گفتگو ہوئی اور تجاویزمنظور ہوئیں۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہم کمزور لوگ ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سر جھکا کر سب کچھ قبول کرلیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن اپنے ایمان و عقیدے پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہمارا ایمان ہم کو سکھاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی صورت میں مایو س نہیں ہونا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں کاایک ایکشن پلان ہے، وہ ہم سے ردعمل چاہتے ہیں، لیکن ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے، ملک میں نفرت کرنے والوں کی بڑی تعداد نہیں بلکہ وہ چھوٹی اقلیت ہیں، بلکہ ہم اس ملک میں اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے اکثریت میں ہیں، لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کی اکثریت خاموش ہے، حالاں کہ وہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ نفرت کا بازار گرم کرنے والے لوگ ملک دشمن، دیش کے غدار اور دشمن ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے عظیم قربانیاں دی ہیں، اس لیے ہم فرقہ پرست طاقتوں کو ملک کے وقار سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ تاہم انھوں نے مسلمانوں کو شدت پسندی اور تیز ردعمل سے بچنے کا مشورہ دیااور کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا۔ اس لیے فرقہ پرستی کا جواب فرقہ پرستی نہیں ہوسکتی۔
انھوں نے کہا کہ آج ہمیں اپنے ملک میں ہی اجنبی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ لوگ دیش کی ایکتا کی بات کرتے ہیں اوراکھنڈ بھارت بنانے کا اعلان کرتے ہیں جب کہ اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کا چلنا دشوار کردیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم آج صبر کررہے ہیں، ضرورت پڑے گی تو دارو رسن کو بھی آباد کریں گے (ان شاء اللہ) لیکن یہ ہم کسی اور کہنے لکھنے سے ایسا نہیں کریں گے بلکہ یہ  فیصلہ ہماری جماعت کرے گی۔جب ہماری جماعت فیصلہ کرلے گی تو پھر ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انھوں نے اس موقع پر  شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے حوصلے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ انگریزوں کی عدالت میں کفن لے کر گئے تھے، ہم اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے کئی اشعار بھی پڑھے اور اشکبار ہوگئے، انھوں نے جمعیۃ کے سابق صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒ کو یاد کیا، نیز فدائے ملت مولانا اسعد مدنی کے مجاہدانہ کارناموں کا بھی تذکرہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند مسلمانان ہند کی استقامت کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ جمعیۃ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی جماعت ہے، اس کا کمزور ہوناملک کی کمزوری ہے۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت اور میڈیا پر زیادہ عائد ہو تی ہے۔
اس موقع پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جمعیۃ علماء کے ذریعہ سدبھاؤنا منچ کا قیام،د رحقیقت ہندستان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے، جمعیۃ کے لوگ اپنے علاقوں میں سدبھاؤ نا منچ مستحکم کریں اور اسے اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
  نائب امیر الہند مفتی سید محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ ہندستان کے مسلمان مکی زندگی جیسے حالات سے گزررہے ہیں، انھوں نے اس نظریہ کی تردید کی کہ اسلام اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کرتا حالاں کہ اسلام برادرانہ ہم آہنگی کی تعلیم دیتا ہے۔اس موقع پر جمعیۃ علماء بنگال کے صدر مولانا صدیق اللہ چودھری، مولانا سلمان بجنوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، مولانا حبیب الرحمن الہ آباد وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹر ی مولانا حکیم الدین قاسمی نے اجلاس کی نظامت کی، انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کی دوسالہ سکریٹری پورٹ پیش کی جس میں جمعیۃ کے اہم خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔انھوں نے سابقہ کارروائی کی بھی خواندگی کی۔مشہور شاعر نواز دیوبند ی نے جمعیۃ سدبھاؤ نا منچ پر بہترین نظم پیش کی۔
ازیں قبل ایک اہم تجویز میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ملک میں  فرقہ پرستی کی سیاہ آندھی سرکاری سرپرستی میں چل رہی ہے، جس نے اکثریتی طبقے کے ذہن کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔مزید برآں قومی میڈیا اشتعال پھیلانے کا سب سے بڑا حربہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں، مسلم حکمرانوں اور اِسلامی تہذیب کے خلاف بے ہودہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کی مہم پورے شباب پر ہے اور ارباب اقتدار قانونی گرفت کے بجائے ان کو آزاد چھوڑ کر حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔جمعیۃ علماء ہند اس بات پر فکر مند ہے کہ مسلم اور اسلام دشمنی کے اعلانیہ اوراجتماعی اظہارکے باعث، عالمی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی ہو رہی ہے اور اقوام عالم میں ہندستان کی متعصب، تنگ نظر اور مذہبی انتہا پسندی کی شبیہ بن رہی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندستان مخالف عناصر کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور ترقی کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند حکومت ہند کو متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ فوری طورایسے اقدامات پر روک لگائے، جو جمہوریت، انصاف اور مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اِسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد سے اپیل کرتا ہے کہ رد عمل اور جذباتی سیاست کے بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں او رملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور اِنصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
جمعیۃ علماء ہند اُمت کے نوجوانوں اور طلبہ کی تنظیموں کو خاص طور سے متنبہ کرتی ہے کہ وہ اندرونی وبیرونی وطن دشمن عناصر کے براہ راست نشانے پر ہیں، انھیں مایوس کرنے، بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، اِس لیے حالات سے ہرگز مایوس نہ ہوں اور نہ ہی صبر وہوش کا دامن چھوڑیں؛ بلکہ اپنی ملی تنظیموں اور ذمہ دار شخصیات پر اعتماد رکھیں۔
اسلامو فوبیاسے متعلق تجویز میں کہا گیا ہے کہ ہندستان میں اِسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ اِسلاموفوبیا، صرف مذہبی عداوت نہیں؛ بلکہ عداوت کو ذہن اور فکر پر حاوی کرنے کا نام ہے، جو ایک عالم گیر اَلمیہ اور انسانی حقوق اور جمہوری اَقدار سے متصادم ہے، جس کی وجہ سے پوری قوم کو مذہبی، سماجی اور سیاسی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس صورتِ حال پر جمعیۃ علماء ہند انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل تدابیر اپنانے کی ضرورت محسوس کرتی ہے:
(۱)  لاء کمیشن کی 2017ء میں شائع ہونے والی 267 ویں رپورٹ کے مطابق تشدد پر اکسانے والوں کو خاص طور پر سزا دینے کے لیے ایک علاحدہ قانون وضع کیا جائے اور سبھی اقلیتوں؛ بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی واقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں پر روک لگائی جائے۔(۲)  تمام مذاہب، نسلوں اور قوموں کے درمیان رواداری، پرامن بقائے باہم اور بین المذاہب ثقافتی ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کی طرف سے مقررہ ۵۱/ مارچ کو ہر سال”عالمی اسلامو فوبیاڈے“ منایا جائے
سدبھاؤ نا منچ سے متعلق تجویز میں جمعیۃ نے اعلان کیا کہ وہ دھرم سنسد کے ذریعہ نفرت پھیلانے والے اَفراد اور گروہوں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر کم از کم ایک ہزار”سدبھاؤنا سنسد“ منعقد کرے گی، جس میں سبھی مذاہب کے بااثر اَفراد کو مدعو کیا جائے گا۔ آج کے اجلاس میں جمعیۃ علماء سے وابستہ ہم ملک سے کئی اہم شخصیات، دارالعلوم ویوبند، دارالعلوم وقف دیوبند سمیت بڑے ادراوں کے ذمہ داران بھی رونق اجلاس تھے۔ 

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر