Latest News

صدر جمعۃ علماء مولانا ارشد مدنی نے سونپی مہاڈ کوکن کے سیلاب متاثرین کو گھروں کی چابیاں، جمعیۃ کے ذریعہ متاثرین کی مدد لائق ستائش: وزیرمملکت

صدر جمعۃ علماء مولانا ارشد مدنی نے سونپی مہاڈ کوکن کے سیلاب متاثرین کو گھروں کی چابیاں، جمعیۃ کے ذریعہ متاثرین کی مدد لائق ستائش: وزیرمملکت
نئی دہلی: لوگ آئے دلاسہ دیکر چلے گئے مگر کام جمعیۃعلماء ہندنے کیا، یہ مجموعی تاثر مہاڈکوکن کے ان سیلاب متاثرین کا ہے جنہیں گزشتہ روز صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے خوداپنے ہاتھوں سے نوتعمیر ومرمت شدہ گھروں کی چابیاں سپردکیں، واضح ہوکہ کوکن مہاڈکے علاقہ میں جولائی 2021 میں آئے تاریخ کے اس بھیانک سیلاب سے سیکڑوں گھروں کا نام ونشان مٹ گیا تھا، کچھ لوگوں نے توکسی مددکے بغیر اپنے گھر کی تعمیر کروائی تھی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کسی مددکے بغیر ایسا نہیں کرسکے تھے، جمعیۃعلماء ہند اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ابتدائی سے ریلیف وامدادکا کام بلاتفریق مذہب وملت جاری رکھا تھا ، اورجمعیۃعلماء مہاراشٹراکے نگرانی میں وہاں ایک تعمیراتی منصوبہ شروع کیا گیا تھا اوراس کی کئی ٹیموں نے مل کر سیلاب متاثرہ علاقہ کا دورہ کرکے ایک سروے رپورٹ تیارکی تھی جس کی بنیادپر 45 مکانات کی تعمیرومرمت کا کام شروع ہوااورتمام تیارشدہ مکانوں کی چابیاں گزشتہ روز متاثرین کے حوالہ کی جاچکی ہیں، جن میں نئے تعمیر شدہ 18مکانات برادران وطن کے ہیں۔
متاثرین کو چابیاں سپردکرنے کے تعلق سے مہاڈکے امبیڈکرہال میں ایک باوقارتقریب منعقدکی گئی جس میں بڑی تعدادمیں علماء، مقتدرشخصیات اورسماجی کارکنان کے علاوہ شیوسینا کے ایم ایل اے اورمہاراشٹراگورنمینٹ کی منسٹراورمیئرنے شرکت کی مولانامدنی نے اپنے خطاب میں کہاکہ جمعیۃعلماء ہند 1919 سے اپنا وجودرکھتی ہے، اس وقت اس کی جودستورسازی ہوئی وہ اب بھی وہی ہے، اس کی بنیادی دفعہ میں ہندوستان میں محبت، اتحاد اور یکجہتی پیداکرنے کے لئے عملی کوشش کرنے کی ہدایت موجودہے، جمعیۃعلماء ہند ہر زمانہ میں ملک کی آزادی سے پہلے اورآزادی کے بعداپنے اسی دستورپر قائم ہے  اورہمیشہ قائم رہے گی ، ملک کے موجودہ حالات بے حدخراب ہیں، آج پورے ملک میں آسام ہو، اترپردیش ہوبہار ہو دہلی یا مدھیہ پردیش ہر جگہ مذہبی شدت پسندی اور منافرت کا کھیل جاری ہے ، حالات کوانتہائی دھماکہ خیزبنادیاگیاہے ، لیکن جمعیۃعلماء ہند کا دستوراور کردار ایسانہیں ہے ، ہم ہرجگہ لوگوں کو اس بات کی ہدایت کرتے ہیں کہ آگ کو آگ سے بجھایا نہیں جاسکتا، بلکہ آگ کو بجھانے کے لئے اس پر پانی ڈالنا ضروری ہے ، انہوں نے کہا کہ وہ لوگ نفرت کی سیاست کھیل رہے ہیں ، قتل وغارت گری کررہے ہیں ، جگہ جگہ ماردھاڑکررہے ہیں، اپنی کرسی بچانے کے لئے ہندومسلم کی لڑائی کرارہے ہیں، لیکن ہم سب سے محبت کرتے ہیں ، اورہمیشہ کرتے رہیں گے ، ہم نے مذہب کی بنیادپر کبھی کوئی تفریق نہیں کی، اس ضمن میں مغربی بنگال ، کیرالہ ،اورکرناٹک وغیرہ میں قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی کا انہوں نے حوالہ دیا اور کہا کہ ہرجگہ سب سے پہلے مصیبت زدہ کے درمیان جمعیۃعلماء اوراس کے لوگ پہنچے اور ہر جگہ انہوں نے ریلیف و امدادکا کام بلاتفریق مذہب وقوم کیا ، مولانا مدنی نے آگے کہا کہ مصیبت یہ پوچھ کر نہیں آتی کہ کون ہندوہے اورکون مسلمان ، بلکہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو بلاتفریق وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ، اس لئے جمعیۃعلماء جو بھی کام کرتی ہے اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہیں کرتی انسانیت کی خدمت ہی اس کا نصب العین ہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ آج یہاں وزیر آدیتی تائی تٹکرے،ایم ایل اے بھرت سیٹھ گوگاولے ، اورصدربلدیہ اسنیہاجگتاپ کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم سب انسانیت کی بقاکے لئے کام کرتے ہیں اسی جذبہ نے یہاں ہم سب کو ایک ساتھ بیٹھایاہے ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ حکومت نے ہمارے کسی کام میں کبھی روکاوٹ نہیں ڈالی اس لئے کہ جمعیۃعلماء کی ایک تاریخ ہے ، ملک کی آزادی میں اس نے کانگریس سے دوقدم آگے بڑھ کر کام کیاہے ،انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم جوکچھ کرتے ہیں کھل کر کرتے ہیں ہماراکچھ بھی چھپاہوانہیں ہے ، ملک کے موجودہ حالات کے پس منظرمیں مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان میں صدیوں سے مختلف مذاہب کے لوگ رہتے آئے ہیں ، شہرہی نہیں گاؤں درگاؤں آپ جاکردیکھیں وہاں ہندواورمسلمان دونوں مل جل کر رہتے ہیں ، مگربراہوفرقہ پرست ذہنیت کا، انہوں نے آج اپنی پرانی تاریخ کو آگ لگادینے کی ٹھان لی ہے ، ہم ان حالات کے اندربھی کھل کراپنی بات کہتے ہیں کیونکہ ہمارے دل دماغ میں ہندومسلم کی کوئی تفریق موجودنہیں ہے ، ہم بطورانسان بلاتفریق ہر مصیبت زدہ کی مددکرنا اپنے لئے باعث اطمینان سمجھتے ہیں اور ملک کی پرانی تاریخ کواپنے سامنے رکھتے ہیں انہوں نے زوردیکر کہاکہ ملک کو پیارومحبت کی طاقت سے ہی آزادکرایا گیاتھا ، آزادی کے متوالوں نے جگہ جگہ اس کے لئے اپنا خون پانی کی طرح بہادیاتھا، آزادی کے لئے بہنے والایہ خون تنہاہندوکا نہیں تھا ، تنہامسلمان کانہیں تھا ، بلکہ یہ دونوں کا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ساتھ اسی پرانی تاریخ کولیکر چلتے ہیں جب تک زندہ ہیں چلتے رہیں گے، نفرت کی سیاست کو نفرت سے نہیں مٹایاجاسکتابلکہ اسے پیارومحبت سے ہی ختم کیا جاسکتاہے ،اورمذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشددقابل قبول نہیں ہوسکتا،انہوں نے کہا کہ مذہب انسانیت، رواداری ، محبت اوریکجہتی کا پیغام دیتاہے، اس لئے جولوگ اس کا استعمال نفرت اورتشددبرپاکرنے کے لئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکارنہیں ہوسکتے ہیں ، مولانامدنی نے انتباہ دیتے ہوئے کہاکہ نفرت سے ملک تباہ وبربادہوجائے گا، پڑوسی ملک سری لنکا کو نفرت ہی کی سیاست نے بربادکیا ہے ، نفرت کے سوداگروں کو سری لنکاسے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔ ہم یہ باتیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے اورہم اسے سرسبزوشاداب اورپھلتاپھولتاہوادیکھناچاہتے ہیں ، مولانا مدنی نے دہلی میں میڈیاکے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ فرقہ پرست عناصر اور ملک کا متعصب میڈ یا دونوں مل کر ملک کے امن واتحاداوریہاں کی صدیوں پرانی روایت سے جو خطرناک کھلواڑکررہے ہیں اس نے ملک بھر میں ایک بارپھر منافرت کی خلیج کو بہت گہراکردیاہے ، مولانا مد ٹی نے مزید کہا کہ فرقہ پرست عناصرنفرت کی جو چنگاری بھڑکاتے ہیں میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اپنی غیر زمہ دارانہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ سے اسے شعلہ بنادیتا ہے، ٹی وی اسکرین پر صحافتی واخلاقی اصولوں کا ہر روز خون کیا جا رہا ہے مگر افسوس جن ہاتھوں میں اس وقت ملک کے آئین و قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہے، انہوں نے اپنے کان اور آنکھ دونوں بند کررکھے ہیں ،مولانا مدنی نے آگے کہا کہ میڈیا جو کچھ کر رہا ہے اس سے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ داغ دار ہورہی ہے، بعض معاملوں میں پہلے بھی عدلیہ میڈیا کے رویوں اور کردار کولیکر سخت تبصرے اور شر زنش کر چکی ہے مگر ملک کا میڈ یا خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہے، انہوں نے گیان والی مسجد کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سروے میں کسی چیز کے برآمد ہونے کی خبر آئی بس پھر کیا تھا میڈ یا نے یکطرفہ شرانگیز مہم شروع کر دی، اور جو کام عدلیہ کا ہوتا ہے وہ خود کرنے لگا، مولانا مدنی نے کہا کہ ہم لگا تار یہ بات کہتے آئے ہیں کہ ان کی پشت پر اقتدا میں بیٹھے بعض طاقتورلوگوں کا ہاتھ ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ میڈیا کو نہ تو ملک کے قانون ووقار کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی عدلیہ کا کوئی خوف اور ڈر، میڈیا کی شرانگیزیوں پر لگام دینے کے غرض سے ہی جمعیہ علماء ہند نے 6 اپریل 2020 میں سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی، اب تک تیرہ سماعتیں ہو چکی ہیں مگر ہر بارکسی نہ کسی وجہ اس پر حتمی بحث نہیں ہو پاتی ، سپریم کورٹ میں 20جولائی کو جمعیۃکی پٹیشن پرالگ سے سماعت متوقع ہے ، مولانا مدنی نے اخیر میں کہاکہ اگراب بھی میڈیاپر نکیل نہیں لگائی گئی اوراسے آزادرکھاگیاتوپھروہ دن دورنہیں جب متعصب میڈیااپنی اس روش سے ملک کے امن واتحادکو پوری طرح تارتارکرچکاہوگا۔ اور تب یہ ملک کی سالمیت اوریکجہتی کے لئے ایک بڑاخطرہ بن جائے گا اوراس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی ہوگی۔ابتداء میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے جنرل سکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی نے رپورٹ میں کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے حکم سے ہماری ٹیم نے کام شروع کیاجو آج پائے تکمیل کوپہنچاہے، ریاستی وزیر آدیتی تائی تٹکرے نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں مولانا ارشد مدنی اور انکی ٹیم کی شکر گذار ہوں کہ اتنا بڑا کام متاثرین اور غریبوں کے لئے کیا۔انہوں نے کہا کہ جتنا سرکار نے نہیں کیا اس سے کہیں زیادہ جمعیۃ علماء نے سیلاب متاثرین کے لئے کیا، میں اسکی گواہ ہوں اور جہاں تک انتظامیہ نہیں پہنچا وہاں جمعیۃ علماء کے لوگ پہنچے ،حالانکہ سرکار ہمیشہ الرٹ پررہتی ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ آپ لوگ الرٹ ہیں، ہم اسی طرح مل جل کر کام کرتے رہیں گے تونفرت پھیلانے والے خود کمزور ہوجائیں گے۔صدر بلدیہ اسنیہا دیدی جگتاپ نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ علماء کے درمیان بیٹھی ہوں مولانا ارشد مدنی کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،اور آپسی بھائی چارہ اٹوٹ رہے گا کیونکہ جمعیۃ نے ذات پات نہ دیکھ کر انسانیت کی بنیاد پر کام کیا ہے، میں اس جماعت کے لئے جو بھی ممکن ہوگا کرتی رہونگی۔انہوں نے کہا کہ میں صدر بلدیہ ہوں مگر یہ ہمارے اختیار میں بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی تباہی کو جھیل سکیں اور سب کی مدد کر سکیں یہ تو جمعیۃ علماء کی ہمت اور قوت تھی کہ وہ پہلے دن سے آج تک مسلسل کام کر رہی ہے میں ان کی شکر گذار ہوں اور انکے کام سے مجھے یہ توانائی ملی ہے کہ نفرت پھیلانے والے کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔مقامی ایم ایل اے بھرت سیٹھ گوگاولے نے کہا کہ مولانا مدنی کو دیکھ کر مجھے قوت ملتی ہے کہ90 سال کی عمر ہونے کے باوجود یہ کس قدر لوگوں کی مدد کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیلاب جس طرح بھیانک تھا اور تباہی جتنی بڑی تھی اسے دیکھ کر یہ نہیں لگتا تھا کہ متاثرین اتنے جلدی پھر کھڑے ہوجائیں گے مگر یہ جمعیۃ علماء ہی ہے جس نے دن رات محنت کر کے انہیں کھڑا کیا ہے، انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ ہندو ہے وہ مسلمان ہے بلکہ سب کی ایک طرح سے مدد کی یہ دیکھ کر مجھے فخر ہوتا ہے کہ ہمارا مہاراشٹر امن و شانتی اور آپسی بھائی چارہ کا گہوارہ ہے۔نظامت کے فرائض مفتی اصغر کھوپٹکر نے انجام دیئے ،جبکہ پروگرام میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی ضلعی کمیٹیاں بھی شریک تھیں، ان میں رائے گڑھ جمعیۃ علماء نے مہاراشٹر جمعیۃ علماء کا بھر پور تعاون کیا۔پروگرام میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے سبھی عہدیداران بھی موجود تھے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر