Latest News

پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی کی تصنیف "تصورات اقبال" کی عصری معنویت: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی کی تصنیف "تصورات اقبال" کی عصری معنویت۔
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
zafardarik85@gmail.com

پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی علمی و تحقیقی اور فکری حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ جہاں وہ ایک تجربہ کار فلسفی اور مدبر ہیں تو وہیں وہ ماہر مصنف، ادیب اور انشاء پرداز ہیں۔ اس وقت آنجناب تدریسی فرائض علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر کاظمی شعبہ فلسفہ کے صدر کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ واشنگٹن اور تہران میں قائم کردہ 2008 کی انٹرنیشنل سوسائٹی برائے اسلامی فلسفہ کے بانی کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گویا آپ کی علمی اور فکری فتوحات کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔ آپ فلسفہ کے ایک ممتاز اسکالر اور نہایت معتبر مفکر واستاد ہیں ۔ آپ کیاب تک آدھا درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، نیز پچھتر تحقیقی مضامین ہندوستان اور بیرون ہند کے معروف و مشہور رسالوں میں نشر ہوچکے ہیں۔ اسی طرح وہ ایک سو سات تحقیقی وفکری مقالے قومی وبین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں پیش کرچکے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کی جملہ کتب ومضامین اہل علم و فضل اور اصحاب علم و دانش سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں، علاوہ ازیں سات کتابیں طباعت کے آخری مرحلہ میں ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ان کی یہ کتابیں بھی جلد قارئین کی نظروں کے حوالے ہونگی۔ 
گویا پروفیسر کاظمی برصغیر کے نامور اور معتبر اسکالر ہیں جن کی تحریروں اور تصنیفی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں پروفیسر کاظمی کی ایک اہم کتاب" تصورات اقبال" پر تبصرہ مقصود ہے۔ اس کتاب کو 2022میں نیشنل پرنٹر اینڈ پبلشر، علیگڑھ نے شائع کیا ہے۔ 
کتاب کے محتویات ، پیش لفظ اور کتابیات کے علاوہ درج ذیل ہیں۔ 
1- فکر اقبال کا پس منظر، 1- اقبال اور اسلامی نشاة ثانیہ کا تصور، 3- قوم کے معمار سرسید اور اقبال، 4- قرآن مجید: فکر اقبال کا ماخذ، 5- اقبال کی شاعری میں مرد مومن کا تصور، 
6- اقبال: سرمایہ داری، اشتراکیت اور اسلام۔ 7- اقبال کی شاعری میں مثالی مومنہ کا تصور، 8- اقبال،وجودیت اور خودی، 9- اقبال اور انسان دوستی، 10- جمالیات :اسلامی تناظر میں، 11- اقبال اور جمالیات، 12 اقبال اور تصوف، 13- اقبال امام حسین اور سانحہِ کربلا۔ 14- اقبال اور عشق رسول۔ کتاب کے مضامین سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نہایت اہم قابل ذکر موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ 
کتاب پر تفصیلی تبصرہ کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے بارے میں پروفیسر کاظمی کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے جو کتاب کے مجموعی خاکے پر مختصرا روشنی ڈالتا ہے۔ 
" زیر نظر کتاب مختلف اوقات میں لکھے گئے میرے ان مضامین پر مشتمل ہے جو یاتو مختلف سیمیناروں،ادبی انجمنوں میں پڑھے گئے ہیں یا کسی کتاب کے باب کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین ملکی و بیرون ملک رسائل میں چھپے ہیں اور آ خری تین مضامین کورونا وبا کے ابتدائی دور کے" خانہ نشینی" کے ماحول میں لکھے گیے ہیں۔ اس کتاب میں ایک مضمون " جمالیات : اسلامی تناظر میں" میں بھی شامل ہے۔ جو اقبال کے تصور جمالیات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے۔ آج کے دور میں اقبال کو سمجھنے کی اتنی ضرورت ہے جتنی کہ ان کے دور میں تھی۔ قارئین سے گزارش ہے کہ علامہ اقبال کو کھلے اور تحقیقی ذہن سے پڑھیں اور سمجھیں اور ان کے کلام میں جو بات بیان کی گئی اور جو انسانی درد پیش کیا گیا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ علامہ اقبال سمجھاتے ہیں کہ اگر فکر و عمل منجمد رہیں گے تو یقیناً ہم دنیا کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ان کی شاعری اور فسلفہ کی روشنی میں اکیسویں صدی کے بہت سے مسائل کا حل ڈھونڈھا جاسکتا ہے اور خصوصاً مسلمانوں میں علمی شعور پیدا کرنے اور مسلسل حرکت و جد وجہد کو بروئے کار لانے میں ان کی فکری کاوشوں سے کام لے کر موجودہ اور آئندہ آنے والے وقتی تقاضوں کی بہتر نشاندھی کرتے ہوئے ان کا مناسب حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔موجودہ کتاب بھی اس ضمن میں ایک کاوش ہے" 
پروفیسر کاظمی کا مذکورہ بالا اقتباس کتاب کے مقصد اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ گویاپروفیسر کاظمی نے کتاب کے اندر جن موضوعات وعناوین پر بحث کی ہے اس سے نہ صرف کتاب کی عظمت اہل فکر کے یہاں دوبالا ہوتی ہے بلکہ پروفیسر کاظمی کا تنوع پسند نظریہ اور ان کی اسلامی فلسفہ، صوفی ازم کے حوالے سے وسیع مطالعہ اور باریک بینی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ پروفیسر کاظمی نے اپنی اس متداول کتاب کے اندر علامہ اقبال کے فلسفہ کو نہایت سادہ، سہل اور آسان الفاظ میں سمجھانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ اصل مصنف وہی ہوتا ہے جو اپنی بات کو اس قدر جامع اور مرتب انداز میں پیش کرے کہ اس سے قاری کو کوئی بھی دقت نہ ہو بلکہ قاری کی دلچسپی اور وابستگی کتاب سے بڑھتی جائے۔ اس حوالے سے پروفیسر کاظمی کی زیر تبصرہ کتاب میں یہ وصف بخوبی پایا جاتاہے کہ کتاب کے مباحث اور ان کا تنوع قاری کو اپنی طرف کھینچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 
اب ضروری ہے کہ کتاب کے بعض اہم گوشوں کا بروئے کار لایا جائے تاکہ دلیل اور دعوی میں مطابقت پیدا ہوسکے۔ 
کتاب کے پہلے باب" فکر اقبال کے پس منظر"میں پروفیسر کاظمی علامہ اقبال کی فکری بصیرت اور ان کے مسلمانوں کے تئیں کارناموں کے متعلق رقم طراز ہیں۔
" مسلمانوں پر اقبال کا احسان عظیم یہ ہے کہ علامہ نے اس احساس کمتری اور ذہنی مرعوبیت کی دلدل سے نکالا۔ پیچیدہ فکری انتشار کی راہوں کو صاف کیا۔ مغربی صنم کدوں کو مسمار کرکے توحید، رسالت اور قرآن شریف کا شغف پیدا کرکے ان کی خودی کو بیدار کیا تاکہ وہ اسی کے آ ئینہ میں دنیا اور مابعد الطبیعیاتی ( Metaphysical ) عارف ہوسکیں۔ 
فکر اقبال کے پس منظر کو اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں اس وقت ایسے انسان کی ضرورت تھی جو مغربی تعلیم پر سطحی ذہن سے فخر کرنے والے عام لوگوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہواور ان سے بڑھ کر مغربی علوم پر نگاہ رکھتا ہو، اورپھر وہ اس پر زور طریقے سے اسلامی فکرو نظریات کی تائید کرے کہ مغرب زدہ لوگ اس کے سامنے بولنے کی جرآت نہ کرسکیں۔ علامہ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس وقت مغربی علومِ وفنون کا جو رعب ذہنوں پر طاری تھا اور مسلمانوں میں یہ تصور عام تھا کہ خالص اسلام عصر جدید کا ساتھ نہیں دے سکتا ،انہوں نے اس تصور کو توڑا اور علوم و فنون جدیدہ کو اسی طرح حاصل کرنے کی ترغیب دی کہ انہیں اسلامی نظریات کے سانچے میں ڈھالا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ وہ سائنسی علوم کو اسلامی قدروں کی روح عطا کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کا ذاتی تشخص بھی برقرار رہے اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی بھی کرتے رہیں" ( تصورات اقبال، ص 16)
متذکرہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ آ ج مسلمانوں میں مغربی علم و فن اور افکار و نظریات کے حوالے سے دو گروہ پائے جاتے ہیں ایک افراط میں مبتلا ہے یعنی مغربی فکرو فلسفہ سے پوری طرح مرعوب ہے جس کی بدولت وہ اسلامی قدروں اور اس کے روحانی و اخلاقی فسلفہ پر بے جا تنقید کا عادی ہوتا جارہاہے ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو مغربی فلسفہ سے تو مرعوب نہیں البتہ وہ مغربی ایجادات و انکشافات اور اس کے اکتسابی علوم سے پوری طرح نالاں ہے۔ اسی وجہ سے وہ ان علوم یا ان کے نظریہ کی قابل قدر باتوں کو بھی نظر انداز کرنے کو عافیت محسوس کرتا ہے۔ ان دونوں راستوں کے مابین علامہ اقبال نے جو نظریہ اور فلسفہ پیش کیا وہ نہایت متوازن اور معتدل ہے۔ یعنی ہمیں مغربی تہذیب وافکار اور ان کے اثرات سے خوف کھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہر ایک بات کو قابل یقیں اور قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ نہ تو اسلامی قدریں اور اس کی روحانیت مجروح ہو اور نہ کسی بھی طرح ہم ان کی جدید ایجادات کی گھن گرج سے مرعوب ہوں۔ علامہ نے جو فکر پیش کی اس میں انسانیت کی رہنمائی ان خطوط پر فرمائی کہ جن کو اختیار کرکے ہم آہنگی اور رواداری کا راستہ نکل سکے۔ پروفیسر کاظمی نے علامہ اقبال اور نشاة ثانیہ کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کتاب کے دوسرے باب میں کی ہے۔ اس باب کا ایک چھوٹا سا اقتباس حوالہ قرطاس ہے۔ 
" اقبال نے اسلامی نشاة ثانیہ کی اس روایت کو جس کا آغاز سر سید سے ہوا تھا، ایک قابل عمل فلسفیانہ بنیاد فراہم کی اور عصری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کا زمانہ کے ساتھ بڑھنے، سائنس اور علوم عصریہ میں ترقی کرنے اور مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے کی تلقین کی۔ مغربی اور مشرقی علوم کے مطالعے اور ذاتی فکر کی بلندی سے مسلمانوں کے سیاسی ، مذہبی ، اقتصادی ، معاشرتی اور علمی انحطاط ، جس کا دور تقریبا اٹھارویں صدی سے شروع ہوکر انیسویں صدی کے وسط میں اپنی آخری منزل طے کرچکا تھا، اقبال نے ادراک کیا اور مسلمانوں کے زوال کے وجوہات معلوم کرنے کے بعد ان کا حل پیش کیا۔ پیغام یقیناً آج بھی مسلمانوں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اقبال کے وقت میں تھا۔ اسلامی نشاة ثانیہ میں جدیدیت کے عظیم قابل عمل فلسفیانہ بنیاد کا مطالعہ شعر میں کم ،خطبات میں زیادہ ممکن ہے گویا علامہ اقبال کے شعر کے فلسفیانہ مشن کے رہنما ان کے خطبات ہیں اسلامی نشاة ثانیہ میں اقبال مسلمانوں کو جھنجھوڑ تے اور جگاتے ہیں تاکہ وہ غفلت سے اٹھے اور ظلمات سے نور کی طرف بڑھے، کائنات کو سمجھے، اپنی خودی وعظمت کو پہچانے اور خالق کائنات کے مشن سے با خبر اور منکشف ہو" ( ایضاً، ص34) اسی وجہ سے انہوں نے کہا ہے۔ 
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔ 
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔ 
پروفیسر کاظمی کا نظریہ یہ ہے کہ اقبال نے ملت کے افراد کو ترقی حاصل کرنے اور تمام تر تحقیقات و ایجادات سے استفادہ کرنے کی پوری طرح حمایت کی ہے لیکن اس حمایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال نے اس بات کی حمایت کی ہو کہ مسلمان فتحیابی اور ترقی کے منازل اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال کر حاصل کریں۔ حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ آج انسانی رشتوں اور تعلقات اسی طرح دیگر قوموں کے علوم و معارف کو حاصل کرتے وقت لوگ اسلامی تعلیمات کو عام طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔ فکر اقبال کی تحریک اس کے برعکس ہے یعنی ہمیں اپنے دین،فلسفہ اور نظام تمدن کو قطعی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ 
پروفیسر کاظمی نے ایک باب کا عنوان " اقبال اور انسان دوستی" قائم کیا ہے اس باب میں انسان دوستی پر بڑی شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے روشنی ڈالی ہے اور بتایاہے کہ علامہ اقبال کے فلسفہ انسانیت اور انسانی رشتوں کی عہد حاضر میں کس قدر ضرورت واہمیت ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ 
"انسان کا احترام اس کی بلند مقامی اور شناخت ، اس سے رغبت اور دوستی اقبال کے کلام میں جابجا ملتی ہے۔ اقبال کی فکر کا مرکز انسان ہے۔ان کے نزدیک کائنات میں بنیادی مقام انسان ہی کو حاصل ہے۔ اگر انسان اپنی آرزؤں کو اعلی مقاصد یعنی انسانی اور روحانی اقدار کے حصول پر مرتکز کرلے تو انسانیت کے اعلیٰ مدارج پر ہہنچ سکتا ہے اور بقول اقبال "فرشتوں سے بہت"ر ہوسکتاہے" ( ایضاً، ص 150) یعنی ہم کہ سکتے ہیں کہ انسانیت کی عظمت و جلالت اور اس کی رفعت شان کے متعلق جو گرانقدر آراء پیش کی ہیں اگر بشر اپنی زندگی کو ان خطوط پر استوار کرلے جن کی طرف اشارہ قرآن نے کیا ہے اور اس کی تعبیر و تشریح علامہ اقبال نے اپنے کلام میں پیش کی ہے تو یقینا انسان دنیا و آخرت کی معراج حاص کرسکتا ہے۔ 
پروفیسر کاظمی نے علامہ اقبال کے فلسفہ انسانیت کی عصری افادیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے۔ 
" علامہ اقبال کا تصور انسانیت جدید ہندوستان کے مفکرین میں کافی اہمیت کا حامل اس لیے ہے کہ ایک طرف یہ تصور وسیع المشرب انسان دوستی اور بنی نوع انسان کی محبت سے عبارت ہے تو دوسری طرف اس فلسفیانہ نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے جو انسان کو حیات و کائنات میں آ زادئی شعور اور خیال وجذبہ میں توافق و توازن پیدا کرکے مادی فتوحات اور روحانی بلندیوں کے حصول کی توفیق وحوصلہ بخشتا ہے۔ اقبال کی نظر می وجود انسانی کی غرض و غایت انسانی صلاحیتوں اور قوتوں کو ترتیب دے کر عروج کمال تک پہنچتا ہے جہاں خالق کائنات اس کی رضا کے بارے میں پوچھے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟" ( ایضا، ص 151)
انسانی یکجہتی اور بقائے باہم کے متعلق پروفیسر کاظمی اپنی کتاب ایک دوسری جگہ نہایت اہم گفتگو کرتے ہیں۔ 
" ہم اقبال کی فکری کاوش کو سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے انسان دوستی کی شمع کو کٹھن سے کٹھن مشکلوں میں بھی روشن رکھا ۔ اقبال کے نزدیک انسان دوستی عظیم مسلک ہے۔ ان کی شاعری اور فکر کا مطمح نظر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود ، انسانی عظمت و احترام ،انسانی مساوات اور حریت فکرو ضمیر ہے۔ اقبال بنیادی طور پر انسان دوست ہیں اور ان کی فکر کا نصب العین انسان کی برتری اور اس کی فضیلت ہے۔ ان کے نزدیک انسان اپنے تمام جہدو عمل اور جذبہ محبت سے بلند ترین انسانی درجہ پر فائز ہوسکتاہے اور انسانی بنیادوں پر زندگی کی تہذیب و تزئین کرسکتا ہے۔ آ ج کے ہندوستان کو اقبال کے انسان دوستی کے تصور کی سخت ضرورت ہے۔ جو اسے موجودہ سیاسی ، مذہبی اور ذاتی بنیادوں کی کشمکش سے نجات دلاسکے۔ آج انسانیت زندگی کے کس موڑ پر کھڑی ہے اقبال کی دور رس نگاہیں پہلے ہی اسے بے نقاب دیکھ چکی تھیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال کے تصور انسان دوستی کو دوبارہ فکر و عمل سے زندہ کیا جائے اور ہندوستان اور عالم انسانیت کو محبت ، خلوص، رواداری، روشن خیالی اور انسان دوستی کے جذبہ سے بیرہ ور کیا جائے۔ مختصرا ہم کہ سکتے ہیں کہ قومی یکجہتی کئ تشکیل " انسان دوستی" ہی کرتی ہے اور ہندوستان سے بہتر اس کی مثال کہاں مل سکتی ہے۔ جہاں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں، جداگانہ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ مذہبوں اور مسلکوں پر چلتے ہیں" ( ایضا، ص158-160) ان کے علاوہ کتاب کے اندر علامہ اقبال کے فلسفہ خودی اور دیگر اہم پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کو پڑھنے سے جہاں قاری کو علمی فائدہ ہوتا ہے وہیں اس کے اندر فکری اور نظریاتی طور بھی توازن و اعتدال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ پروفیسر کاظمی کی یہ کتاب موجودہ عہد میں کیا پیغام دیتی ہے تو میں یہ بات بڑے اعتماد سے کہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کے اندر نوع انسانیت کے لیے نہایت جامع اور اہم پیغام پنہاں ہے وہ یہ کہ آ ج کے اس ہمہ ہمی، نفرت و بیزاری کے ماحول میں اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی نظم اور نثر کے اندر جو درس انسانی رشتوں کی بقاء اور باہمی افہام و تفہیم کے حوالے سے دیا ہے اب اسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ کتاب سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ اگر ہم اپنے دل ودماغ کو کشادہ کریں گے اور خود کو اسلامی اقدار سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کی تکمیل کے لیے آگے آ ئیں تو یقینا ہم اس کائنات میں بھی سرخ رو ہونگے اور کل قیامت میں بھی فتح سے ہمکنار ہونگے۔ گویا یہ کتاب جہاں علامہ اقبال کے فکرو فلسفہ اور ان کے علمی،انسانی اور تحقیقی تصورات کو اجاگر کرتی ہے تو وہیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ کائنات میں اصل زندگی کا مقصد ایسا فلسفہ اور فکر و نظر کا آ گے بڑھانا ہے جس سے معاشرتی اور سماجی سطح پر انسانی ہم آ ہنگی، یکجہتی اور بلاتفریق وامتیاز کے رہ سکیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آسکیں، علامہ اقبال نے اپنے کلام میں انسان دوستی کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے حوالے سے جو گرانقدر ترانے اور گیت گائے ہیں وہ سب ان کے فکر و نظر اور فسلفہ کو عظمت بخشتے ہیں۔ قوموں اور معاشروں کو یکجائیت ومرکزیت اور اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہیں۔ بہر حال پروفیسر کاظمی کا یہ تصنیفی شاہ کار علامہ اقبال کے فکرو فسلفہ سے پوری طرح واقف کراتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کتاب متنوع خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ کتاب جہاں فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم ہے تو وہیں ادیبوں، انشاء پردازوں ، کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی طرح یہ کتاب بدلتے ہندوستانی معاشرے کو ہم آہنگ کرنے مذہب ومسلک کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے بھی بڑی ضروری ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر