Latest News

گیان واپی کیس: ایک ہندوستانی شہری کے انتہائی اہم اور قابلِ غور سوالات

گیان واپی کیس: ایک ہندوستانی شہری کے انتہائی اہم اور قابلِ غور سوالات۔
تحریر:موکل سرل
بنارس کی گیان واپی مسجد پر نئے تنازعہ کے تناظر میں، آئین کے ماننے والے کے طور پر میرے کچھ سوالات ہیں جو میں اپنے ہی ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔ ہمیں یہ سوالات اپنے حکمرانوں سے بھی پوچھنے چاہئیں، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ یا پھر ایک نئے تنازع کی شکل میں مل جائے ؟

اہم سوال
1- وارانسی میں کاشی وشواناتھ کوریڈور کے لیے تقریباً 150 چھوٹے بڑے مندر توڑ دیے گئے، پھر ایک شیولنگ کے لیے اتنا ہنگامہ کیوں؟
2- جو لوگ بغیر وہاٹس ایپ انٹرنیٹ کے دور میں پورے ملک میں گنیش کی مورتی کو دودھ پلوا سکتے ہیں، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔فوارہ کو بھی شیولنگ ثابت کر سکتے ہیں۔
3- جب مدعی فریق کے وکیل کے کہنے پر وضوخانہ میں ملے ایک پتھر کو شیولنگ مان کر پورے وضو خانے کو سیل کرا دینا تھا۔ بدھ پورنیما کی سرکاری تعطیل پر اس طرح کی فوری کارروائی کی جانی تھی۔ تو پھر کورٹ کمشنر کی تقرری اور اس کی رپورٹ کا کیا مطلب ہے؟

4- جب ہندو مدعی کے مطابق مسجد میں 500 سال سے زائد عرصے سے شیولنگ موجود تھا۔ یعنی اتنے سالوں تک وہ وہاں محفوظ رہا۔ تو اسے ایک دن مزید رہنے دینے میں کیا حرج تھا؟ عدالت نے اپنے ہی کمشنر کی رپورٹ کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ اور یہی نہیں جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر التوا ہے تو کوئی حکم صادر کرنے میں اتنی جلدی کیوں؟
5- ان سب باتوں کے پیش نظر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ ساری بحث ایک پلانٹڈ ہے۔ ایک ڈرامہ۔ 2024 کے الیکشن کی تیاری۔ آر ایس ایس کے 100 سال مکمل ہونے پر 2025 میں ہندو راشٹر قرار دینے کی تیاریاں!

اور ایک آخری سوال
اگر گیان واپی مسجد میں کوئی شیولنگ ہوتا اور وہ بھی اس حوض میں جس میں ہر روز پانی بھرا جاتا، یعنی جو نظر کے سامنے تھا تو بت پرستی کو حرام ماننے والے لوگ اسے آج تک محفوظ رکھتے؟ اسے آج تک کیوں نہیں توڑا گیا؟ کیا اس لئے کہ ایک دن کچھ لوگ کورٹ کا آرڈر لے کر آئیں گے اور اسے دیکھ کر ثابت کر دیں گے کہ یہ مسجد نہیں مندر ہے ۔!
دوستو، سچ تو یہ ہے کہ پہلے ہمارے اقتدار کے لیے رام مندر کے نام پر ہماری جوانی برباد کی گئی۔ وہاں بھی ایک رات (1949 میں) اسی طرح کے مورتی کے ظاہر ہونے کا شور مچا تھا۔ اور جلد ہی تنازع ایسا بڑھ گیا کہ پورے ملک کی ترقی رک گئی۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں پورے شمالی ہندوستان میں طوفان برپا تھا۔ منڈل کی کاٹ کے لئے کمنڈل کا ایسا مجسمہ کھڑا کیا گیا کہ آخر کار 1992 میں بابری مسجد کو گرا دیا گیا۔ رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے کے باوجود سپریم کورٹ نے بھی مسجد کے انہدام کو مجرمانہ فعل قرار دیا۔ تاہم اس کے لیے کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ تمام ملزمان کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا۔
اب گیان واپی کے نام پر ہمارے بچے برباد ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یا اس کے ساتھ متھرا شری کرشنا جنم بھومی- عیدگاہ کا تنازع بھی ہے اور اب تاج محل اور قطب مینار کا بھی تنازع ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج ان پر فل اسٹاپ نہ لگایا گیا تو ایسے جھگڑے کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
پورے ملک سے وعدہ کیا گیا تھا کہ رام مندر کے بعد کوئی تنازع نہیں کھڑا کیا جائے گا۔ 1991 میں ایک قانون پاس کیا گیا تھا (Places of Worship Act, 1991) کہ بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ کو چھوڑ کر ملک میں تمام مذہبی مقامات کی حیثیت وہی رہے گی جو 15 اگست 1947کو آزادی کے وقت تھی، لیکن نہیں۔ عدالت میں سیکورٹی کا حلف نامہ دینے کے باوجود بابری مسجد کو گرا دیا گیا اور پورے ملک کو فسادات کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اب اسی عدالت کے حکم پر مندر بن رہا ہے تو اب تنازعہ کے نئے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔
آج آپ ملک کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ ایک بڑی آبادی کے لیے کھانا پکانے کی گیس اور آٹا بھی خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ بے روزگاری کا یہ حال ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان بے کار گھوم رہے ہیں۔ تیل اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ پکوڑے تلنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے ابھی تک کووڈ سے نمٹے نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کہہ رہی ہے کہ ہمارے سرکاری اعداد و شمار سے 10 گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ لیکن آج ان سب کو چھوڑ کر پھر سے مندر-شیولنگ کی بات ہو رہی ہے۔ تمام کام چھوڑ کر لوگوں کو مساجد کے سامنے ہنومان چالیسیا پڑھنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ خواتین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں اور نوجوانوں سے قلم چھوڑ کر ہتھیار اٹھا نے کی کامطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ قتل عام کی بات ہو رہی ہے۔ بتاؤ کیا اب بھی کچھ کہنا باقی ہے؟

کیا دیکھنا باقی ہے

کیا دیکھنا ہے! کیا دیکھیں گے؟

گر اب بھی نہ صورت بدلی

تو اپنے بچے بھگتیں گے !

(بشکریہ: نیوز کلک )
روزنامہ خبریں

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر